1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کانفرنس: امن عمل کی بحالی اور امداد پر اتفاق رائے

عاصم سلیم
5 اکتوبر 2016

بيلجيم ميں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس ميں علاقائی طاقتوں نے افغانستان ميں تعطّل کے شکار امن عمل کو بحال کرنے اور 2020ء تک کابل حکومت کی مالی امداد کے ليے تيرہ بلين ڈالر جمع کرنے پر اتفاق کر ليا ہے۔

https://p.dw.com/p/2QuAd
Afghanistan Konferenz
تصویر: DW/M.A. Farahmand

یورپی یونین کی رابطہ کار برائے خارجہ پالیسی فیدیریکا موگرینی نے اعلان کيا ہے کہ متعلقہ حکومتيں تيرہ بلين ڈالر کی امدادی رقوم جمع کرنے کے عمل ميں مصروف ہيں تاکہ آئندہ چار برس کے ليے کابل حکومت کی مدد جاری رکھی جا سکے۔ برسلز ميں ستّر سے زائد ممالک نے افغانستان کی مالی امداد جاری رکھنے کے مقصد سے تازہ وعدے کيے ہيں۔ موگرينی نے يہ اعلان بيلجيم کے دارالحکومت برسلز ميں چار اور پانچ اکتوبر کو افغانستان کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس کے آخری روز کيا۔ اس موقع پر ان کا مزيد کہنا تھا کہ مالی امداد کے علاوہ تعطّلی کے شکار امن عمل کی بحالی پر بھی زور ديا جائے گا۔ کانفرنس کے پہلے روز يعنی منگل کی شب امريکا، چين، بھارت اور پاکستان کے سرکردہ نمائندوں نے ايک عشائيے ميں بھی شرکت کی۔ بعد ازاں فیدیریکا موگرینی نے بتایا کہ افغانستان میں امن اور مفاہمتی عمل کے لیے علاقائی سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

افغانستان ميں پندرہ برس قبل امريکی افواج نے عسکری کارروائی کرتے ہوئے طالبان حکومت کو شکست دے دی تھی تاہم حاليہ برسوں کے دوران طالبان دوبارہ زور پکڑتے جا رہے ہيں۔ کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابين گزشتہ چند برسوں کے دوران کسی سمجھوتے کی متعدد کوششيں کی گئيں تاہم وہ تمام ناکام رہيں۔ ماہرين کا ماننا ہے کہ امن عمل اور مذاکرات ميں طالبان کی شرکت کے بغير کسی بامعنی حل تک پہنچنے کے امکانات کم ہی ہيں۔

Belgien Brüssel - Afghanen protestieren gegen Korruption und Diskriminierung
مظاہرين يورپی يونين اور کابل حکومت کے مابين طے پانے والے معاہدے کے خلاف احتجاج کر رہے تھےتصویر: DW/M. Arif Farahmand

دريں اثناء اس کانفرنس کے موقع پر برسلز ميں افغان ہزارہ کميونٹی کے سينکڑوں ارکان نے احتجاج بھی کيا۔ يہ مظاہرين يورپی يونين اور افغان حکومت کے مابين اسی ماہ طے پانے والے اس معاہدے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جس کے تحت سياسی پناہ کے ناکام درخواست دہندگان کی يورپی ممالک سے ملک بدری کا عمل آسان ہو سکے گا۔ مہاجرين کے بحران کے تناظر ميں داخلی سطح پر مخالفت کے سبب يورپی حکومتيں ناکام درخواست دہندگان کی ملک بدری کے سلسلے ميں کافی دباؤ کا شکار ہيں۔ يورپی رہنماؤں کا موقف ہے کہ افغانستان ميں، بشمول دارالحکومت کابل، کئی ايسے علاقے ہيں، جو محفوظ ہيں۔ دوسری جانب امدادی گروپوں نے طالبان عسکريت پسندوں کے حاليہ حملوں کے سبب اس ڈيل کو کڑی تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔

واضح رہے کہ اس ڈونرز کانفرنس ميں اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل بان کی مون اور امريکی وزير خارجہ جان کيری نے بھی شرکت کی۔ کيری نے کانفرنس سے اپنے خطاب ميں کہا کہ خطے کے کئی ممالک امن عمل کو آگے بڑھانے ميں مدد کر سکتے ہيں۔ انہوں نے روس، چين، پاکستان، بھارت اور ايران پر زور ديا کہ وہ يہ سوچيں کہ وہ خطّے ميں قيام امن اور تبديلی لانے ميں کتنا خاص کردار ادا کر سکتے ہيں۔