1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کو دی جانےوالی امداد

25 مارچ 2008

افغانستان کو عالمی اداروں اور ترقی یافتہ ملکوں کی جانب سے اربوں ڈالر کی امداد درست انداز میں استعمال نہ ہونے پر بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/DYDD
افغانستان کودیا جانے والا امدادی سامان
افغانستان کودیا جانے والا امدادی سامانتصویر: AP


کچھ غیر سرکاری تنظیموں نے افغانستان میں تعمیر نو کے جاری عمل پر بے یقینی کا اظہار کیا ہے۔اُن میں شامل عالمی شہرت کی حامل غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سےجاری ہونےوالی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی اور اتحادیوں کی جانب سے طالبان کی مزاحمت کو کچلنے کے لیئے تو روزانہ کی بنیادوں پر لاکھوںکروڑوں روپے خرچ کیئے جا رہے ہیں لیکن وہاں کے مقیموں کی حالت زار پر توجہ کا احساس ترجیحات کی فہرست میں کم مقام پر دکھائی دے رہا ہے۔

افغانستان میں کام کرنےوالی چورانوے غیر سرکاری تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم ،کو آرڈی نیٹنگ باڈی برائے افغان امداد کی ایجنسی ACBAR کے مطابق صر ف امریکہ روزانہ کی بنیاد پر ایک سو ملین ڈالر صرف کر رہا۔ افغان تعمیر نو کے لیئے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکی اور یورپی وعدے پورے نہیںہوسکے ہیں۔

رپورٹ میں کئی حقائق کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دی جانےوالی امداد میں سے چالیس فی صد ترقی یافتہ ملکوںکو کارپوریٹ سیکٹر میں منافع اور تنخواہوں کی مد میں واپس مل جاتا ہے۔اس کے علاوہ امداد کا ایک بڑا حصہ حکومت افغانستان کو ملتا بھی نہیں اور بالا بالا کہیں سے کہیں اور پہنچ جاتا ہے۔اس صورت حال کی تصدیق افغان حکومت کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا کہ کل امداد کا چالیس فی صد اس ترقیاتی مد پر خرچ کیا جانا تھا مگر دی جانے والی رقوم میں سے نوے فی صد طالبان کی مزاحمت اور دوسرے سکیورٹی امور کی نذر ہو رہا ہے جس سے سارے ملک میں تعمیراتی مسائل کو مکمل کرنے کا خواب اور منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا ہے۔

کوآرڈی نیٹنگ ایجنسی میں شامل ایم تنظیم کے مشیر Waldmann Matt کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پائیدار ترقی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیئے مالی امداد میں روانی اور تسلسل کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اُن کا صحیح مقام پر خرچ کرنا ضروری ہے وگرنہ موجودہ صورت حال کے تناظر میں امداد ضائع ہو جائے گی۔

عالمی برادری کا جانب سے افغانستان کی تعمیر و ترقی کے لیئے پچیس ارب ڈالر کے وعدے دیئے گئے تھے مگر اُس میں صرف پندرہ ارب میّسر ہو سکیں ہیں بقیہ دس ارب ڈالر ابھی جمع ہونا باقی ہیں۔ دوسری طرف افغان اقتصادیاتبین الاقوامی امداد پر تکیہ کیئے ہوئے ہے۔

برطانوی جین انفارمیشن گروپ کے مطابق افغانستان کی اقتصادیات دنیا کی تیسری انتہائی ناپائیدار اقتصادیات ہے۔عام آدمی کی حالت زار یہ ہے کہ بیس فی صد بمشکل صاف پینے کا پانی حاصل کرسکتے ہیں اور پانچ فی صد بجلی کی نعمت حاصل ہے۔

افغانستان کودی جانےوالی امداد کا سب سے بڑا ڈونر امریکہ ہے اور سن دو ہزار آٹھ میں اُس کی جانب سے بھی آدھی امداد روانہ کی گئی ہے۔اِسی طرح یورپی کمیشن اورجرمنی کی طرف سے دو تہائی امداد جاری کی گئی ہے۔

غیر سرکاری تنظیموں کی جا نب سے جاری ہونےوالی رپورٹ میں مالی امداد کے وعدے کی مناسبت سے جرمن حکومت نے پر زور الفاظ میں تردید کی ہے ۔جرمن حکومتی ترجمان کے مطابق وعدے کے مطابق نوے فی صد مالی فنڈ کا اجرا ہو چکا ہے۔یورپی یونین نے بھی جرمنی حکومت کی طرح اِس رپورٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔ برسلز میں یونین کے ترجمان کے مطابق فنڈ کی ریلز میں نہ کوئی رکاوٹ ہے اور نہ ہی تاخیر کی جا رہی ہے۔