1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کی گھمبیر جنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ

عابد حسین
10 دسمبر 2016

افغان جنگ کو بعض ماہرین ایک بھولی ہوئی جنگ قرار دینا شروع ہو گئے ہیں۔ سن 2001 میں شروع ہونے والی یہ جنگ اب اپنے سولہویں برس میں داخل ہو گئی ہے۔ ابھی بھی مکمل کامیابی کی امید انتہائی کم ہے۔

https://p.dw.com/p/2U46x
U.S. Navy Seals Symbolbild
تصویر: picture-alliance/U.S. Navy/Seal

افغانستان میں طالبان کی کابل حکومت اور اُس کے غیرملکی اتحادیوں کے ساتھ جنگ جاری ہے۔ اس دوران ایک اور امریکی صدر کا دور اختتام کے قریب ہے۔ یہ جنگ ستمبر گیارہ سن 2001 کے دہشت گردانہ واقعات کے تناظر میں شروع  ہوئی تھی اور تقریباً دس ہزار امریکی فوجی افغانستان میں تعینات کر دیے گئے تھے۔ اوباما عراق جنگ کے مخالف تھے لیکن وہ افغان جنگ کی اہمیت سے انکاری نہیں ہوئے۔

 اسی جنگ کے دوران جارج ڈبلیو بُش جونیئر کی مدتِ صدارت بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی تھی۔ اب اوباما کے دورِ صدارت کے دو ادوار ختم ہونے میں محض چالیس ایام رہ گئے ہیں اور افغانستان کے کئی علاقوں میں طالبان مسلح مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس دوران امریکا کی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج نے افغان پولیس اور فوج کو جدید تربیت بھی فراہم کی لیکن کوئی حتمی کامیابی کی امید پیدا نہ ہو سکی۔

بیس جنوری سن 2017 سے افغانستان کی جنگ نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتقل ہو جائے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ رواں برس کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کی مرکزی حریف ہلیری کلنٹن نے بھی افغان جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی نئی بات نہیں کی تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ جب منصبِ صدارت سنبھالیں گے تو انہیں یقیناً افغان جنگ پر بھی بھرپور توجہ دینا ہو گی۔

Washington White House Trump bei Barack Obama
امریکی صدر اوباما اور منتخب ہونے والے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپتصویر: picture-alliance/abaca/O. Douliery

ٹرمپ کو ورثے میں ملنے والی اِس جنگ کی حکمتِ عملی کو نئے انداز میں مرتب کرنے کے لیے سابقہ جرنیلوں کی معاونت حاصل ہو گی جنہیں وہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور وزارتِ دفاع کے منصب سونپ چکے ہیں۔ امریکا نے افغانستان میں اپنا جنگی مشن تو ختم کر دیا ہے لیکن افغان فوج کی تربیت اور معاونت کے لیے اُس کے آٹھ ہزار سے زائد فوجی ابھی وہاں موجود ہیں۔ افغانستان میں امریکا کے یورپی اتحادی بھی اِس جنگ میں شریک ہیں۔ اب نئے صدر کے طور پر ٹرمپ ان فوجیوں میں اضافہ کرتے ہیں یا مزید کمی، اس مناسبت سے کوئی بھی نئی بات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔

افغانستان میں سکیورٹی اہلکاروں کی تربیت و رہنمائی کے علاوہ امریکی فوج القاعدہ اور اُس کے حامی شدت پسندوں کو ڈھونڈ کر ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری بھی رکھے ہوئے ہے۔ اس امریکی آپریشن میں اب ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسندوں کو بھی ڈرونز سے نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہے۔ ٹرمپ اس امریکی دو رخی پالیسی پر افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں نظرثانی کر سکتے ہیں۔