1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے لئے نئی جرمن حکمتِ عملی کا اعلان

26 جنوری 2010

28 جنوری کو لندن میں بین الاقوامی افغانستان کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ اِس کانفرنس سے دو روز پہلے جرمنی نے عشروں سے جنگوں اور بحرانوں کی لپیٹ میں آئے اِس ملک کے لئے اپنی آئندہ حکمتِ عملی کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/LhSS
میرکل : نئی حکمتِ عملی کا اعلانتصویر: picture alliance/dpa

ایک طرف مزید فوجی روانہ کرنے کی بات کی جا رہی ہے تو دوسری جانب آئندہ سال افغانستان سے جرمن فوجی دَستوں کی واپسی کا عمل شروع کرنے کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے۔ منگل کو جرمن دارالحکومت برلن میں چانسلر انگیلا میرکل نے تفصیل کے ساتھ اُس نئی حکمتِ عملی کے خدوخال بیان کئے، جو جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے اٹھائیس جنوری کو لندن میں منعقدہ بین الاقوامی افغانستان کانفرنس میں جرمنی کی جانب سے پیش کریں گے۔

Afghanistan / ISAF / Ausbildung / Bundeswehr
جرمن ٹرینر افغان پولیس اہلکاروں کو تربیت دیتے ہوئےتصویر: AP

جرمن قیادت کا پیغام یہ ہے کہ جرمنی افغانستان میں ہر سطح پر اپنی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرے گا۔ جرمن چانسلر نے کہا کہ امن و سلامتی کے بغیر تعمیرِ نو کا کام ممکن نہیں ہے لیکن دوسری جانب تعمیرِ نو کے بغیر امن و امان بھی قائم نہیں ہو سکے گا اور نئی جرمن حکمتِ عملی اِسی نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے مرتب کی گئی ہے۔

ایک عرصے سے جرمن حکومت اپنی اِس نئی پالیسی کے حوالے سے خاموشی اختیار کئے ہوئے تھی۔ اب لیکن اِس پالیسی کے اعلان کے ساتھ ساتھ ٹھوس اعداد و شمار بھی بتا دئے گئے ہیں۔ برلن حکومت نے تعمیرِ نو کے شعبے میں اپنی امداد کو 220 سے بڑھا کر 430 ملین یورو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ساتھ ساتھ افغان پولیس اور فوج کے سپاہیوں کی تربیت کے لئے بھی زیادہ اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے لئے افغانستان بھیجے جانے والے اضافی فوجیوں کی تعداد بہرحال کم ہو گی۔

Merkel Afghanistan Soldaten Krieg Symbolbild
افغانستان میں سرگرم جرمن فوج کے سپاہیتصویر: picture alliance/dpa

اِس حوالے سے چانسلر میرکل نے کہا: ’’ہمارا کردار اب زیادہ سے زیادہ مدافعانہ ہو گا، جس کے لئے ہمیں افغانستان میں موجود اپنی جرمن فوج کے ڈھانچے میں کچھ تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔ اِن کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہاں ہمارے تربیت دینے والے فوجیوں کی تعداد، جو اب دو سو اسی ہے، بڑھ کر چَودہ سو ہو جائے گی حالانکہ ہم جرمنی سے محض پانچ سو اضافی فوجی افغانستان بھیجیں گے۔‘‘

نئی جرمن حکمتِ عملی میں یہ بھی شامل ہے کہ جرمنی لندن کانفرنس میں مجوزہ اُس منصوبے کی بھی مکمل حمایت کرتے ہوئے دَس ملین یورو فراہم کرےگا، جس کا مقصد طالبان کا ساتھ چھوڑنے والے افغانوں کو مالی مدد اور ملازمتیں فراہم کرنا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے پہلے ہی یہ واضح کر چکے ہیں کہ یہ مراعات اُنہی افغان شہریوں کو دی جائیں گی، جو نظریاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ محض روزگار کے حصول کے لئے طالبان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

Afghanistan / Hamid Karsai
جرمنی سے پہلے افغان صدر کرزئی نے ترکی کا دورہ کیاتصویر: AP

نئی حکمتِ عملی کے بنیادی مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے آج جرمن چانسلر کا کہنا تھا:’’ہمارا نصب العین ایک ایسا افغانستان ہے، جہاں ایسے ڈھانچے موجود ہوں، جن کی موجودگی میں طالبان اور دہشت گرد قوتوں کا اتحاد آئندہ افغانستان ہی کے لئے نہیں بلکہ ہمارے لئے بھی خطرہ نہ بن سکے۔‘‘

جرمنی نیٹو مشن کے لئے امریکہ اور برطانیہ کے بعد سب سے زیادہ فوجی فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اب امریکہ کی طرح جرمنی نے بھی سن دو ہزار گیارہ سے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں بتدریج کمی کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خود کابل حکومت نے اپنے لئے یہ نصب العین متعین کیا ہے کہ افغانستان سن 2014ء سے اپنے معاملات خود سنبھال لے گا۔ جرمنی کی نئی افغان پالیسی کا اعلان ایک ایسے وقت کیا گیا ہے، جب منگل کو ہی افغان صدر حامد کرزئی بھی دو روزہ دَورے پر برلن پہنچ رہے ہیں۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: کشور مصطفےٰ