1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے مرکزی بینک کے گورنر امریکہ فرار

28 جون 2011

افغانستان کے مرکزی بینک کے گورنر امریکہ فرار ہو گئے ہیں۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کر دیا۔ ان کے مطابق ان کی جان کو اعلیٰ حکومتی عہدداروں سے خطرات لاحق ہیں۔

https://p.dw.com/p/11kZk
تصویر: DW

مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق امریکی شہریت رکھنے والے افغان بینک کے چیئرمین عبدالقدیر فطرت نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان امریکہ میں کیا، جہاں وہ اس وقت موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ افغان دارالحکومت میں قائم ایک نجی ’کابل بینک‘ میں 467 ملین ڈالر کی بدعنوانیوں اور غبن کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کی تحقیقات کرنا چاہتے تھے جبکہ حکومتی شخصیات کی طرف سے مسلسل مداخلت کی جا رہی تھی۔ ایک برطانوی نشریاتی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’میری زندگی خطرے میں تھی۔ خاص طور پر اس وقت سے، جب سے میں نے پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے کابل بینک کے بحران کے ذمہ داران کو بے نقاب کیا تھا۔‘‘

Afghanistan Banken Krise
افغانستان کے 80 فیصد سرکاری اہلکاروں کو تنخواہیں اس بینک کے ذریعے دی جاتی ہیںتصویر: AP

مئی میں افغان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے فطرت نے کہا تھا کہ کابل بینک میں غبن اور بدعنوانی کے ان معاملات میں صدر حامد کرزئی کے قریبی رشتہ دار اور رفقاء بھی ملوث ہیں۔ کابل بینک سن 2004 میں پوکر کے بین الاقوامی کھلاڑی شیر خان فرنود نے قائم کیا تھا۔ اس بینک میں صدر حامد کرزئی کے بھائی محمود کرزئی اور افغان نائب صدر مُحمد قاسم فہیم کے بھائی محمد حسین کا بھی حصہ ہے۔ دوسری جانب صدر کرزئی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ فطرت کی جان کو کئی خطرہ نہیں تھا۔

قبل ازیں افغانستان کے مرکزی بینک نے کابل بینک کا انتظام اس وقت سنبھال لیا تھا، جب افغان صدر کے بھائی نے دبئی میں کابل بینک کی دولت استعمال کرتے ہوئے 900 ملین ڈالر کی رقم سے ایک بنگلہ خریدا تھا۔ مرکزی بینک کی جانب سے یہ اقدام افغانستان کے سب سے بڑے نجی بینک کو بچانا تھا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے کرزئی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں، جن سے یہ یقین ہو کہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہیں ہوں گے۔ مالیاتی فنڈ کے مطابق تب تک کسی بھی نئے امدادی پروگرام کی منظوری نہیں دی جائے گی۔

Kabul Bank
کابل بینک سن 2004 میں پوکر کے بین الاقوامی کھلاڑی شیر خان فرنود نے قائم کیا تھاتصویر: DW/M.Jalalzai

آئی ایم ایف کے ایک ترجمان نے وال سٹریٹ جنرل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں، ’’ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح افغان بینکنگ سسٹم کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔‘‘

اس بینک کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان کے 80 فیصد سرکاری اہلکاروں کو تنخواہیں اس بینک کے ذریعے دی جاتی ہیں۔ حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ کابل بینک کے حصہ داروں کو نکال دیا گیا ہے اور اگر انہوں نے قرضے واپس نہیں کیے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

ایک ہفتہ قبل افغان وزیر خزانہ Omar Zakhilwal کا کہنا تھا کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے اور آئی ایم ایف کابل بینک کے مسئلے کے حل کے لیے ان کے ساتھ ’’گیم‘‘ کھیل رہی ہے۔ قبل ازیں افغان صدر بھی کابل بینک کے بحران کا ذمہ دار غیر ملکوں کو ٹھرا چکے ہیں۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں