1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان جیلوں کے نو عمر قیدی: تشدد کے مظہر

31 مارچ 2010

ایک امریکی وکیل نے اپنی ایک تازہ سماجی ریسرچ رپورٹ میں بتایا ہے کہ افغانستان کی جیلوں میںاوسطً تین مرد قیدیوں میں دو نو عمر ہیں۔ یہ نو عمر قیدی افغان جیلوں میں جسمانی اذیت کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Mide
تصویر: ap

امریکہ کی ایک وکیل کمبرلی موٹلی نے بین الاقوامی حقوق اطفال آرگنائزیشن UNICEF کے لئے ایک ریسرچ رپورٹ مکمل کی ہے۔ یہ رپورٹ اُن نوعمر افغان قیدیوں کے حوالے سے ہے جو معمولی جرائم یا بغیر کسی جرم کے مقید کر دئے گئے ہیں۔ اِن جیلوں میں قید نوعمر قیدیوں کے انٹرویز پر مبنی اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ نو عمر قیدی جنسی زیادتی سے لیکر غیر معمولی تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں جو بسا اوقات غیرانسانی اور وحشیانہ انداز کا ہوتا ہے۔

مارپیٹ کے ساتھ ساتھ سخت اذیتی طریقے بھی اپنائے جاتے ہیں جن میں بجلی کے جھٹکے بھی شامل ہیں۔ ان نو عمر قیدیوں میں بہت سارے وہ ہیں جو بغیر کسی جرم کے حراست میں لئے گئے اور پھر اُن پر ٹارچر کرکے انہیں اعتراف جرم پر مجبور کیا گیا۔

Das Logo und der Schriftzug der Hilfsorganisation UNICEF sind am 5. Februar 2008 an der Zentrale in Koeln zu sehen.
حالیہ تحقیق یونیسیف کے لئے مرتب کی گئی ہےتصویر: AP

رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغانستان کا جیل کا نظام ان نوعمر قیدیوں کے لئے کچھ بہتر کرنے سے قاصر ہے۔ موٹلی نے اِن قیدیوں کو غیر منصفانہ نظام کی بینٹھ چڑھنے سے تعبیر کیا ہے۔ امریکی خاتون ریسرچر کے مطابق افغانستان کی جیلوں میں چھ سو سےزائد نو عمرقیدی ہیں۔ اِن میں اسی لڑکیاں اور پانچ سو بیس لڑکے ہیں۔ خاتون کو صرف دو لڑکیوں سے انٹرویو کرنے کا موقع دیا گیا۔ پانچ سو بیس میں سے انہوں نے دو سو اڑتالیس لڑکوں سے بات کی۔ یہ انٹرویو خاتون سماجی کارکن نے اٹھائیس صوبوں میں گھوم پھر کر ریکارڈ کئے۔ اِن میں ایک سو تیس قیدیوں کی عمریں اٹھارہ سال سے بھی کم ہیں۔ دونوں لڑکیوں نے بھی اپنے انٹرویو میں بتایا کہ انہیں پولیس نے پوچھ گچھ کے دوران خاصا مارا پیٹاتھا۔ نو عمر لڑکوں نے بھی موٹلی کو بتایا کہ دوران پوچھ گچھ پولیس نے اعترافی بیان حاصل کرنے کے لئے اُن پر بہت تشدد کیا تھا۔

یہ اعداد وشمار اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف نے شائع کئے۔ اِس ڈیٹا کو افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کے ادارے کی تائید بھی حاصل ہے۔ اِس کمیشن نے رپورٹ کے حوالے سے یہ بتایا کہ پچپن فی صد لڑکوں اور گیارہ فی صد لڑکیوں کو وقت گرفتاری خاصی مارپیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تمام نوعمر اور نوجوان قیدیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کی مار کا مقصد اعتراف جرم کروانا ہوتا ہے تا کہ انہیں چارج شیٹ مکمل کرنے میں آسانی میسر رہے۔ اِن قیدیوں نے موٹلی کو بتایا کہ انہوں نے اپنے اعترافی بیانات پر دوران تشدد ہی دستخط کئے تھے۔ اِن قیدیوں میں سے نصف کو عدالتوں میں اپنے حق میں بولنے کا حق بھی حاصل نہیں۔ پولیس اُن کو پہلے ہی متنبہ کردیتی ہے کہ عدالت میں بولنا اُن کے حق میں نہیں ہو گا اور مزید تفتیشی ریمانڈ میں ان کو مزید تشدد کا سامنا کرنا ہو گا۔

AFGHAN POLICE STAND AT ATTENTION AFGHANISTAN SECURITY p178
افغان پولیس اہلکارتصویر: AP

افغانستان میں نیشنل سیکیورٹی پولیس کا خوف عام انسانوں کے علاوہ مقامی پولیس اہلکاروں کو بھی ہے۔ کئی افراد کا کہنا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی پولیس کے ہتھکنڈے اُسی انداز کے ہیں جیسے سابقہ کمیونسٹ دور حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کے تھے۔ یہ ادارہ بھی غیر قانونی اذیتی طریقوں کو فروغ دے رہا ہے۔ محقق موٹلی کو افغانستان کے مختلف صوبوں میں تعینات بے شمار ججوں سے ملاقات کا بھی موقع ملا اور ان سے بھی نوعمر قیدیوں کے ساتھ عدالتی کارروائی کے بارے میں پوچھنے پرججوں نے بتایا کہ جب عدالت میں کوئی قیدی اپنے حق میں نہ بولے تو یہ یقین کرلیا جاتا ہے کہ اُس نے یقینی طور پر جرم سرزد کیا ہوا ہے۔

افغانستان میں انسانی حقوق کے اداروں اور سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ جو شخص بھی کسی جرم میں پولیس حراست میں لیا جاتا ہے تو اُس کو انتہائی سخت حالات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ یہ سخت حالات پولیس گچھ سے شروع ہوتے ہیں اور جیل میں بھی جاری رہتے ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادار : شادی خان سیف