1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان خاتون سیما غنی کا منفرد اعزاز

21 مارچ 2017

افغان کارکن سیما غنی کو خواتین کے لیے ان کی خدمات کے صلے میں ایک اہم برطانوی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ غنی کی طرف سے افغان خواتین کی استعداد بڑھانے اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی کوششوں کو عالمی سطح پر سراہا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Ze3m
Afghanistan Internationaler Frauentag Kabul Amani High School
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

 سیما غنی نہ صرف سول سرونٹ کے طور پر کام کر چکی ہیں بلکہ وہ مینیجمنٹ کنسلٹنٹ اور شاعرہ بھی ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم سیما غنی کا خواب ہے کہ ان کے آبائی ملک افغانستان میں خواتین ملک کی ترقی کی خاطر مردوں کے شانہ بشانہ فعال ہوں۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے مختلف منصوبہ جات بھی شروع کیے۔ ان کی انہی کوششوں کی وجہ سے اس شورش زدہ ملک میں خواتین کی استعداد میں اضافہ ہوا بلکہ انہیں ملازمتوں کے مواقع بھی میسر آئے۔

افغانستان: لاقانونیت کے خلاف ’ شیریں کا قانون‘

افغان خاتون پائلٹ کی امریکا میں سیاسی پناہ کی درخواست

معصومہ مرادی، افغانستان کی واحد خاتون گورنر

افغان خواتین کی خاطر کی گئی انہی کاوشوں کے اعتراف میں معروف سماجی کارکن سیما غنی کو حال ہی میں لندن میں منعقدہ ایک شاندار اور پروقار تقریب میں Bond Outstanding Individual Award سے نوازا گیا۔ ایک فوجی افسر کی بیٹی غنی نوے کی دہائی میں افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے باعث مہاجرت اختیار کرتے ہوئے برطانیہ چلی گئی تھیں۔ لندن میں رہائش کے دوران انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

تاہم جب نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکی عسکری اتحاد نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو سن دو ہزار دو میں سیما غنی واپس افغانستان چلی گئیں۔ وہ اپنے ملک کی تعمیرنو اور بحالی میں کردار ادا کرنے کی خواہاں تھیں۔

انعام وصول کرنے کے بعد لندن میں تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو میں غنی نے کہا کہ ’حب الوطنی کے جذبے کے تحت میں افغانستان کو کچھ واپس کرنا چاہتی ہیں‘۔ افغان خانہ جنگی میں یتیم ہونے والے بچوں کی مدد کرتے ہوئے انہوں نے سولہ بچوں کو گود بھی لیا ہے۔ ان بچوں کی عمریں تین اور سترہ برس کے درمیان ہیں۔

افغانستان میں فنانس اور لیبر کی وزارتوں میں ملازمتوں کے بعد انہوں نے بدعنوانی کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہیں افغان ویمن چارٹر کی شریک بانی ہونے کا اعزاز  بھی حاصل ہوا، جس کے تحت انہوں نے افغان خواتین کی سیاست اور بزنس میں شراکت کو زیادہ فعال بنانے کی کوشش جاری رکھی۔

سیما غنی ’ہینڈ اِن ہینڈ افغانستان‘ کی چیئر پرسن بھی ہیں۔ یہ چیریٹی ادارہ ملک سے غربت کے خاتمے کے لیے فعال ہے۔ خواتین کو مستعد بنانے کے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟ اس بارے میں انہوں نے بتایا، ’’ہم لوگوں کو مچھلی پکڑ کر نہیں دیتے بلکہ انہیں مچھلی پکڑنا سکھاتے ہیں‘‘۔ غنی کے بقول، ’’افغانستان میں یہ رحجان پایا جاتا ہے کہ امداد کی رقوم پر گزارہ کیا جائے لیکن میری کوشش ہے کہ لوگ اپنے قدموں پر خود کھڑے ہوں۔‘‘

سیما غنی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے منصوبہ جات شروع کیے جانے چاہییں۔ ان کی کوشش ہے کہ افغانستان واپس آنے والے سابق مہاجرین کی بھی مدد کی جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مہاجر کی زندگی گزارنا آسان کام نہیں ہے۔‘‘ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے ستر ملکوں میں 2.6 ملین مہاجرین آباد ہیں۔ یہ وہ افغان ہیں، جو ملک میں شورش کی وجہ سے مہاجرت پر مجبور ہوئے۔