1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کی کابل حکومت سے مکالمت، پھر پاکستان کو بریفنگ

مقبول ملک
22 اکتوبر 2016

ایک افغان سفارت کار اور ایک پاکستانی اہلکار کے علاوہ خود افغان طالبان کے ذرائع کے مطابق بھی طالبان کی قطر میں کابل حکومت کے نمائندوں سے حالیہ بات چیت کے بعد طالبان کے ایک وفد نے پاکستانی حکام کو اس بارے میں بریفنگ دی۔

https://p.dw.com/p/2RY9V
Katar Doha Taliban Vertretung
دو ہزار تیرہ میں دوحہ، قطر میں قائم کردہ افغان طالبان کا رابطہ دفترتصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ہفتہ بائیس اکتوبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق حال ہی میں قطر میں ہونے والی اس بات چیت کے بعد افغان طالبان کے ایک وفد کے پاکستان کے اس مبینہ دورے کی خود طالبان کے ایک سینیئر عہدیدار اور ایک افغان سفارت کار کے علاوہ ایک اعلیٰ پاکستانی اہلکار نے بھی تصدیق کر دی ہے۔

پاکستان میں افغانستان کے سفیر حضرت عمر ذخیل وال نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ افغان طالبان کی مزاحمتی تحریک کے تین سرکردہ ارکان کے حالیہ دورہ پاکستان اور اس دوران ان کی پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقاتوں سے آگاہ ہیں۔ تاہم ذخیل وال نے ان ملاقاتوں کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔

اسی دوران افغان طالبان کے ایک سینیئر رہنما نے بھی خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ قطر میں طالبان کے ایک وفد نے کابل حکومت کے نمائندوں کے ساتھ حال ہی میں مذاکرات کیے، جن کے بعد طالبان کی طرف سے ان مذاکرات سے متعلق پاکستانی حکام کو بریفنگ دینے کے لیے طالبان کے جس وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، اس میں تین شخصیات شامل تھیں۔

طالبان کے اس رہنما کے بقول پاکستان جانے والے اس وفد میں ملا سلام حنیفی اور ملا جان محمد کے علاوہ، جو دونوں طالبان دور حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں، مولوی شہاب الدین دلاور بھی شامل تھے، جو کابل میں طالبان حکومت کے دور میں سعودی عرب اور پاکستان میں افغان سفیر کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔

Omar Zakhilwal afghanische Finanzminister PK 12.03.2014 Berlin
پاکستان میں افغانستان کے سفیر عمر ذخیل والتصویر: picture-alliance/dpa

اس کے علاوہ پاکستانی سکیورٹی اداروں میں سے ایک کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بھی تصدیق کی ہے کہ پاکستانی حکام اور افغان طالبان کے مابین حال ہی میں ملاقاتیں ہوئی ہیں اور پاکستان اس سلسلے میں ہمسایہ ملک افغانستان میں قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

اس پاکستانی سکیورٹی اہلکار نے، جسے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے حوالے سے میڈیا کو کچھ بھی بتانے کا اختیار نہیں ہے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’جیسا کہ ہم نے 2015ء میں بھی کیا تھا، ہم کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات کو ممکن بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ دنیا جانتی ہے کہ پچھلی مرتبہ افغانستان میں امن عمل کو کس نے نقصان پہنچایا تھا۔ اب ہم یہ سب تلخ باتیں دوہرانا نہیں چاہتے لیکن قیام امن کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘‘

قطر میں کابل حکومت اور افغان طالبان کے مابین حالیہ مذاکرات کی چند حلقوں نے اب تک اگر تصدیق کی ہے تو چند حلقے ان کی تردید بھی کر چکے ہیں۔ تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ اب  طالبان کے ایک سینیئر رہنما، افغان حکومت کے ایک سفیر اور ایک پاکستانی سکیورٹی اہلکار، تینوں نے تقریباﹰ بیک وقت قطر میں اس مکالمت کی تصدیق کی ہے۔

Afghanistan Mullah Haibatullah Akhundzada
افغان طالبان کے موجودہ رہنما ملا ہیبت اللہ اخوندزادہتصویر: picture alliance/AP Photo/Afghan Islamic Press

کابل حکومت افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں طالبان سے اپنے مذاکرات کی کوششوں کے حوالے سے پاکستان کے روایتی کردار کی اب مخالف ہو چکی ہے۔

اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ کابل میں ماضی قریب میں ہونے والے متعدد خونریز حملوں کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے ان کا الزام پاکستان میں مقیم طالبان قیادت پر عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ اب افغانستان یہ نہیں چاہتا کہ کابل حکومت کی طالبان کے ساتھ مذاکراتی کوششوں میں پاکستان بھی شامل ہو۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں