1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مہاجرین کی یورپ سے ’جبری واپسی غیر قانونی‘، ایمنسٹی

شمشیر حیدر نیوز ایجنسیاں
5 اکتوبر 2017

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک سے ’غیر قانونی طور پر زبردستی واپس بھیجے گئے‘ پناہ کے مسترد شدہ افغان درخواست گزاروں کو جنگ زدہ ملک افغانستان میں تشدد، اغوا اور قتل جیسے خطرات کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/2lEq3
Flughafen Leipzig-Halle Abschiebung abgelehnter Asylbewerber
تصویر: picture alliance/dpa/S. Willnow

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک سے ’غیر قانونی طور پر زبردستی واپس بھیجے گئے‘ پناہ کے مسترد شدہ افغان درخواست گزاروں کو جنگ زدہ ملک افغانستان میں تشدد، اغوا اور قتل جیسے خطرات کا سامنا ہے۔

جرمنی میں کسے پناہ ملے گی اور کسے جانا ہو گا؟

مہاجرین کی فوری ملک بدری، یورپی عدالت کا اسپین کے خلاف فیصلہ

انسانی حقوق کے لیے سرگرم عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سن 2016 کے دوران یورپی ممالک نے ساڑھے نو ہزار ایسے افغان باشندوں کو ’زبردستی‘ واپس افغانستان بھیجا تھا، جن کی ان ممالک میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں رد کر دی گئی تھیں۔ واپس افغانستان بھیج دیے جانے والے مہاجرین کی یہ تعداد اس سے ایک برس قبل، یعنی 2015 کے مقابلے میں قریب تین گنا زیادہ رہی تھی۔

جرمنی: افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری پھر سے شروع

ایمنسٹی کے مطابق ان افغان باشندوں کی اکثریت ایسی تھی جن کی یورپ میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں رد کر دی گئی تھیں، تاہم ایسے افغان شہری جو رضاکارانہ وطن واپسی کے یورپی پروگراموں کے تحت پیسے لے کر اپنی مرضی سے واپس افغانستان لوٹ گئے تھے، وہ بھی اس رپورٹ میں شمار کیے گئے ہیں۔

یورپ میں سن 2015 میں بڑی تعداد میں پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کی آمد کے بعد سے یورپی سیاستدانوں کو مہاجرین کی تعداد کم کرنے کے لیے عوامی دباؤ کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس عالمی ادارے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے، ’’یورپی حکومتیں پناہ کے متلاشی افراد کو زبردستی واپس انہی ممالک بھیج رہی ہیں، جہاں سے یہ لوگ اپنی جانوں کو لاحق خطرات کی بنا پر ہجرت کر کے یورپ گئے تھے، ایسے اقدامات کر کے یورپی ممالک بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔‘‘

یہ امر بھی اہم ہے کہ گزشتہ برس یورپ سے افغان پناہ گزینوں کے واپس بھیجے جانے میں بھی اضافہ ہوا اور اسی برس افغانستان میں طالبان اور داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کے حملوں میں مارے جانے والے عام افغان شہریوں کی تعداد میں بھی ماضی کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سن 2016 کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد ساڑھے گیارہ ہزار سے بھی زائد رہی تھی اور ان میں بھی ایک تہائی تعداد بچوں کی تھی۔ افغان جنگ شروع ہونے کے سولہ برس بعد سن 2017 کے پہلے نصف حصے کے دوران بھی افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔

ایمنسٹی نے اپنی اس رپورٹ میں یورپ سے جبری طور پر واپس افغانستان بھیجے گئے عورتوں اور بچوں سمیت اٹھارہ افغان شہریوں کے بیانات بھی شامل کیے ہیں۔

ناروے سے جبراﹰ وطن بھیجی جانے والی ایک افغان خاتون نے بتایا کہ ان کے خاندان کی وطن واپسی کے چند ماہ بعد ہی ان کے شوہر اغوا کر لیے گئے جنہیں بعد ازاں قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح ناروے سے ہی زبردستی واپس افغانستان بھیجا جانے والا ایک خاندان اکتوبر 2016 میں کابل میں شیعہ مسلمانوں کی مسجد پر کیے گئے حملے کے دوران زخمی ہو گیا تھا۔ زخمی ہونے والوں میں ایک دو سالہ بچہ بھی شامل تھا۔

ایمنسٹی نے یورپی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک افغانستان کی سکیورٹی صورت حال مہاجرین کی ’باحفاظت اور باوقار واپسی‘ کے قابل نہیں ہو جاتی، تب تک افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کا سلسلہ روک دیا جائے۔

موسمِ سرما ختم، افغان مہاجرین کی ملک بدری پھر شروع

2017ء جرمنی سے ملک بدریوں کا سال ہو گا، جرمن وزیر