1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقتصادی راہ داری پر کام کرنے والے 44 ملازمین ہلاک ہوئے

امتیاز احمد8 ستمبر 2016

عسکریت پسند پاک چین اقتصادی راہ داری کی تعمیر میں ہر ممکنہ رکاوٹ حائل کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک اس اقتصادی راہ داری پر کام کرنے والے چوالیس ملازمین ہلاک ہو چکے ہیں اور اس صورتحال سے چین حکومت بھی پریشان ہے۔

https://p.dw.com/p/1JyZ9
Pakistan Hafen Gwadar
پاک چین اقتصادی راہ داری ( سی پیک) پورے پاکستان میں سے ہوتی ہوئی بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ پر ختم ہو گیتصویر: picture-alliance/dpa

پاک چین اقتصادی راہ داری ( سی پیک) کی تعمیر کے لیے چھیالیس ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی جائے گی۔ سڑکوں کے جال، ریلوے اور توانائی کی پائپ لائنوں کے ذریعے مغربی چین کو گہرے پانیوں والی گوادر بندرگاہ سے ملایا جائے گا۔

یہ اقتصادی راہ داری پاکستان کے شورش زدہ صوبہ بلوچستان سے گزرتی ہے اور اسی صوبے کے عسکریت پسند اس کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق انہوں نے بلوچستان کی سکیورٹی بہتر بنانے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس صوبے میں سلامتی کی صورتحال میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ بلوچستان پاکستان کا معدنیات سے مالا مال صوبہ ہے اور اس صوبے کے علیحدگی پسند بلوچ سی پیک کی مخالفت کر رہے ہیں۔

China Investitionen in Pakistan
چین کے خدشات کو دور کرنے کے لیے پاکستان نے گزشتہ برس آرمی کی ایک نئی ڈویژن قائم کی تھی، جس میں دس ہزار سے بھی زائد اہلکار شامل ہیںتصویر: DW/A. Ghani Kakar

پاکستانی فوج کی نگرانی میں کام کرنے والی تعمیراتی کپنی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے ایک ترجمان کرنل ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے تمام ملازمین پاکستانی تھے اور ان میں سے زیادہ تر سڑک کنارے نصب بموں یا پھر تعمیراتی سائٹس پر ہونے والے حملوں میں ہلاک ہوئے۔

ان کا مزید کہنا تھا، ’’ بلوچستان مین سن 2014 کے بعد سے سڑکوں کی تعمیر کے دوران چوالیس ملازمین ہلاک جبکہ ایک سو سے زائد زخمی ہوئے۔‘‘

نومبر 2015 میں ہلاک ہونے والے ملازمین کی تعداد پچیس تھی لیکن موجودہ تعداد اس میں اضافے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ دوسری جانب اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے چینی حکام نے بھی پاکستان سے سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کی اپیل کی ہے۔

چین کے ان خدشات کو دور کرنے کے لیے پاکستان نے گزشتہ برس آرمی کی ایک نئی ڈویژن قائم کی تھی، جس میں دس ہزار سے بھی زائد اہلکار شامل ہیں اور ان کا کام سی پیک کے تعمیراتی منصوبوں اور چینی ملازمین کی حفاظت کرنا ہے۔

ایف ڈبلیو او کمپنی کی مالک پاکستانی فوج ہے اور بلوچستان، شمالی علاقہ جات اور اپکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اسی کمپنی کو اکثر و بیشتر سڑکوں کی تعمیر کے ٹھیکے دیے جاتے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق بلوچستان میں سکیورٹی کے مسائل بدستور موجود ہیں لیکن تعمیراتی منصوبے کا کام شیڈیول کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسندوں کو بیرونی ممالک سے مدد مل رہی ہے لیکن وہ تمام مسائل سے آگاہ ہیں۔ پاکستان نے ضرب عضب کے نام سے ایک فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہے اور حالیہ چند برسوں میں سکیورٹی کی مجموعی صورتحال میں بہتری بھی ہوئی ہے۔ تاہم ان تمام تر کوششوں کے باوجود عسکریت پسند حملے کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور گزشتہ ماہ کوئٹہ میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں چوہتر افراد مارے گئے تھے۔