1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقتصادی کساد بازاری کے سیاہ بادل اہم اقوام پر چھاتے ہوئے

24 دسمبر 2008

اقتصادی کساد بازاری کے اثرات اب انتہائی واضح ہو چکے ہیں۔ امریکہ سمیت دیگر ترقی یافتہ اقوام اپنی اقتصادیات کو متحرک کرنے کی کوششوں میں ہیں ۔

https://p.dw.com/p/GMFf
مضبوط اقتصادیات کا نشان: امریکی ڈالر اور یورپی یوروتصویر: AP

سن دو ہزار آٹھ کا اختتام قریب ہے اور ترقی یافتہ ملکوں میں کرسمس کا تہوار بھی آن پہنچا ہے جو عموماً انتہائی پر مسرت لمحات کا حامل ہوتا ہے۔ عام آدمی شاید اتنا باخبر نہ ہو لیکن اقتصادی ماہرین اور حکومتی عہدے داران کے اندر کرسمس کی خوشیوں کا احساس بہت کم ہے کیونکہ اقتصادی کساد بازاری کے خاتمے کے سلسلے میں کی جانے والی تمام کوششیں ادھوری رہی ہیں۔

اربوں ڈالر کے امدادی پیکج اور اقتصادی سرگرمیوں کو تیز تر کرنے والے اقدامات ناکافی دکھائی دے رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادیات امریکہ میں سودی شرح منافع کی سطح کو انتہائی کم کرنے سے بھی جمود میں گرفتار معاشیات تحریک نہیں پا سکی ہے۔

IWF-Direktor Dominique Strauss-Kahn
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے سربراہ ڈومینیک سٹراس کہانتصویر: picture-alliance / dpa

دوسری جانب انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کے سربراہ ڈومینیک سٹراس کہان نے اگلے سال کو اقتصادیات کے لئے انتہائی برا سال قرار دے کر خطرے کی مزید گھنٹیاں بجا دیں ہیں۔ عالمی ادارے کی جانب سے اقوام کے لئے نئے مالی سال کا اگلا جائزہ جنوری میں عام کیا جا رہا ہے جس میں بتایا جائے گا کہ مختلف ملکوں کی اقتصادیات کی تازہ ترین صورت حال کیا ہے اور سن دو ہزار نو میں اِس میں مزید کیا ظہور پذیر ہو گا۔

برطانیہ میں اقتصادی گرواٹ کا احساس تو سن ايیس سو نوے سے لگایا گیا تھا مگر گزشتہ ایک دو سالوں میں اُس کی اقتصادیات نے زوال کی جانب بڑی تیزی سے سفر کیا ہے۔ برطانوی اقتصادیات کا حجم مسلسل سکڑتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ماہرین اقتصادیات ابھی تک کی جانے والی کوششوں کو کم دیکھ رہے ہیں۔ شاید اِسی تناظر میں بینک آف امریکہ کے برطانوی اقتصادیات کے ماہر میتھیو شراٹ کے مطابق ابھی کچھ نہیں ہوا ابھی تو انتہائی اقتصادی بد حالی نے سامنے آ نا ہے۔ اگر موجودہ صورت حال اتنی گھمبیر ہے تو آنے والے ماہ و ایام میں اقتصادی بدحالی تو شاید کسی عفریت کی صورت میں منظر عام پر آئے گی۔

Geldumtausch bei Victoria Street Station in London
برطانوی اقتصادیات پر کساد بازاری کے چھائے بادل۔ پاؤنڈ کی شرح کم ہوؤی ہوئیتصویر: AP

نیوزی لینڈ کی استحکام اور سکون سے عبارت اقتصادیات کا گراف بھی مسلسل روبہ زوال ہے اور گزشتہ آٹھ سالوں میں معاشی حجم میں اتنی گراوٹ پیدا نہیں ہوئی تھی کہ گزشتہ دو چار سہ ماہیوں میں دیکھی گئی ہے۔ مرکزی بینک اور ماہرین معاشیات شرح منافع میں کمی لانے کے باوجود ملکی مالی منڈی اور مالی اداروں میں اعتماد بحال کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔

یورپی ملک سپین بھی کساد بازاری کی دہلیز پر لڑکھڑا رہا ہے۔ گزشتہ پندرہ سال بہتر اقتصادی صورت حال کے ساتھ تھے کہ عالمی مالیاتی بحران نے سپین کی معاشیات پر رعشہ طاری کردیا ہے۔ تازہ ترین اقتصادی جائزے سے پتہ چلا ہے کہ سالانہ ترقی کی شرح نمو میں اکتوبر کے بعد مسلسل کمی پیدا ہوئی ہے۔

یہی حال ایک اور یورپی ملک اٹلی کی مالیات کا ہے وہاں بھی کنزیومر اعتماد بری طرح متزلزل ہو چکا ہے اور دسمبر میں، کرسمس کے موقع پر شاپنگ مال اور بڑی بڑی مارکیٹوں میں تمام تر آرائش کے باوجود سبھی کاروباری مرکز اور بازار گاہگوں کے منتظر رہے۔

دوسری جانب فرانسیسی مارکیٹوں میں گاہگوں کی موجودگی تسلی کا باعث ہے۔ عام گھریلو اشیاء کی خریداری میں فرانسیسی گاہکوں کی دلچسپی میں ضرور اضافہ ہوا ہے مگر اِس کے ساتھ ساتھ کاروں کی خرید میں واضح کمی سے آأٹو انڈسٹری کے ساتھ ساتھ حکومتی حلقے بھی پریشان ہیں۔

ایسا ہی منظر جرمن معاشیات کا ہے جہاں چانسلر اینگلا میرکل اگلے سال کے اوائل میں اپنی ملک کی جامد اقتصادیات میں حرکت پیدا کرنے کے لئے ایک اور امدادی پیکج کا اعلان کرنے والی ہیں۔ اِس سے پہلے بھی ایک اقتصادی امدادی پیکج متعارف کروایا جا چکا ہے۔

اِس صورت حال کے تناظر میں عالمی مالیاتی ادارے کے سربراہ ڈومینیک سٹراس کہان کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو فوری طور ٹیکسوں کی مد میں کٹوتی لاتے ہوئے حکومتی اقتصادی سرگرمیوں کو متحرک کرنا ہے جس کے لئے اُنہیں مختلف شعبوں میں اخراجات کرنیں ہوں گے۔ اب کئی ملکوں کی حکومتیں بشمول جرمنی کے ٹیکس مد میں فی الحال راحت دینے کے لئے تیار نہیں کیونکہ اِس سے حکومتوں کی سالانہ آمدنی میں کمی پیدا ہونے سے بجٹ خسارہ دو چند ہو سکتا ہے۔ اقتصادی اخراجات کے حوالے سے بھی تشکیک کا شکار ہیں کیونکہ سرمائے کا حجم کم ہو رہا ہے۔ سٹراس کہان کا کہنا درست ہے کہ سرمایہ اقتصادی ہلچل سے جنم لیتا ہے اگر حکومتیں یونہی محتاط روی کا عمل جاری رکھے رہیں تو اقتصادیات پر جمی برف پگھلنے سے رہی۔

عالمی مالیاتی بحران سے کئی صنعتی پیداواری یونٹ بند کرنے کی پلاننگ کر لی گئی ہے۔ ہزاروں لاکھوں افراد بے روزگاری کے آشوب میں مبتلا ہو چکے ہیں اور ہونے والے ہیں۔ ایسے میں اعتماد سے عاری اقتصادیات کو کرسمس سے کیا لینا دینا۔