1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

‘‘اقوام متحدہ کے مشن نے افغان انتخابات میں دھاندلی کو جان بوجھ کر نہیں روکا‘‘

2 اکتوبر 2009

افغانستان کے حالیہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے اب وہاں کی سیاست کا ایک نیا رخ سامنے آیا ہے۔ ملک میں اقوام متحدہ کے مشن کے ایک سینئر عہدے دار نے کہا کہ مذکورہ مشن نے جان بوجھ کر انتخابی دھاندلی کی تحقیقات نہیں ہونے دیں۔

https://p.dw.com/p/JwXv
تصویر: picture-alliance/ dpa

افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے ایک اعلٰی سابقہ عہدے دار پیٹر گالبریتھ نے مذکورہ مشن کے سربراہ کائی آئیڈے پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے افغان الیکشن میں ہوئی انتخابی دھاندلی کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو جان بوجھ کر روکا، تاکہ حامد کرزئی پہلے ہی دور میں حتمی نتائج کے ساتھ، نئے صدر منتخب ہوسکیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے نام اپنے ایک خط میں گالبریتھ نے لکھا ہے کہ انہوں نے افغان الیکشن کمیشن کو دھاندلی زدہ ووٹوں کی گنتی کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی تھی، مگر مشن کے سربراہ کائی آئیڈے انہیں صدر کرزئی کے کہنے پر یہ کام کرنے سے روک دیا۔

UAMA Pressekonferenz in Kabul, Afghanistan
اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے سربراہ کائی آئیڈے نے گالبریتھ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہےتصویر: DW / Farahmand

نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اس خط کے اقتباسات کے مطابق اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ نے صدر کرزئی کے حق میں جانب دارانہ رویہ اپنایا کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ ان متنازعہ ووٹوں سے کرزئی کو براہ راست فائدہ ہوگا۔ گالبریتھ کے اس خط کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انہیں کائی ایدے نے فوری طور پر ملازمت سے برطرف کردیا ہے۔

گالبریتھ نے کہا: ’’کائی آئیڈے یہ نہیں چاہتے تھے کہ ہم اس بارے میں بات کریں۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ اقوام متحدہ کے مشن کے اراکین مختلف متنازعہ امور، جیسے کہ ووٹنگ ٹرن آؤٹ، کے بارے میں کابل میں موجودہ مغربی سفارت کاروں سے بات کریں، کیونکہ ہمیں پتا تھا کہ افغان انتخابات میں ٹرن آؤٹ بہت کم تھا، خاص طور سے ملک کے جنوبی حصے میں۔‘‘

اس سلسلے میں حیران کن پہلو یہ ہے کہ ایک طرف افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل سٹانلے مک کرسٹل مزید دستوں کی درخواست کررہے ہیں، تو دوسری جانب مغربی ممالک کے مخصوص مندوب اور عہدے دار حامد کرزئی کی غیر مقبول حکومت کی کامیابی کے لئے زور لگا رہے ہیں۔

Der UN-Sondergesandten für Afghanistan Peter Galbraith
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے ایک اعلٰی سابقہ عہدے دار پیٹر گالبریتھتصویر: AP

اسی دوران افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر اب جرمن فوج کی جانب سے بھی وہاں مزید دستوں کی تعیناتی کی تجاویز سامنے آرہی ہیں۔ جرمن فوج کے ایک سابق جنرل اور نیٹو کی ملٹری کمیٹی کے سابق سربراہ ہیرالڈ کویات نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں مزید ساڑھے چار ہزار جرمن فوجی بھیجنے کے حق میں ہیں، جس کے بعد وہاں جرمن فوج کی کل تعداد آٹھ ہزار تک ہوجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ISAF کے دستوں کی تعداد میں اضافہ، طالبان کے خلاف جنگ کو تیز کرنے اور وہاں کی صورتحال پر قابو پانے کے لئے بہت ضروری ہے۔

رپورٹ: انعام حسن

ادارت: امجد علی