1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’الوداع راحیل شریف‘: نواز شریف کے لیے کٹھن لمحات

24 نومبر 2016

وزیراعظم پاکستان کی طرف سے نئے آرمی چیف کی تقرری کا اعلان پوری قوم کی توجہ اور تجسس کا سبب بنا ہوا ہے۔ خود وزیر اعظم کے لیے یہ لمحات کتنے مشکل اور اہم ہیں اس موضوع پر ڈوئچے ویلے شعبہ اُردو کی سربراہ کشور مصطفیٰ کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/2TBx3
Raheel Sharif und Premierminister Nawaz Sharif
تصویر: picture alliance/Photoshot

’الوداع راحیل شریف‘: نواز شریف کے لیے کٹھن لمحات

وزیر اعظم پاکستان نواز شریف ان دنوں نہایت مشکل اور نازک لمحات سے گزر رہے ہیں۔ ایک طرف پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر مسلسل جھڑپوں اور دونوں طرف کے فوجیوں اور شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے اپنے عہدے سے رُخصت ہونے کا وقت قریب سے قریب تر آتا جا رہا ہے اور نئے آرمی چیف کی تقرری کا اہم مرحلہ بھی طے پانا ہے۔

2013ء میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ اس طرح پاکستانی  حکومت کے سربراہ کے طور پر اب تک وہ چار مرتبہ اپنی مرضی کے مطابق آرمی چیف کا تقرر کر چُکے ہیں۔ جبکہ 29 نومبر کو وہ پانچویں بار پاکستانی فوج کے سربراہ کی تقرری کا اعلان کرنے والے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تقرری کے بعد سے پاکستان کی سول حکومت اور فوج کے تعلقات بظاہر اچھے نظر آئے لیکن حقیقت میں متعدد ایسے مسائل دونوں کے مابین نزاع کا باعث بنے جن کی نشاندہی  میڈیا وقتاً فوقتاً کرتا رہا۔ اس ضمن میں چھ اکتوبر کو پاکستان کے ایک معتبر اور معروف انگریزی روزنامے  ڈان میں صحافی سرل المائڈا کے مضمون کی اشاعت نے حکومت پاکستان اور فوج کے مابین گہرے اور غیر معمولی نوعیت کے اختلاف کی کھُلی نشاندہی کی تھی۔ اس رپورٹ میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے درمیان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کے معاملے پر اختلافات منظر عام پر لائے گئے تھے۔ اس کہانی کی پاکستانی حکومت نے تین مرتبہ تردید کی تھی۔

Mustafa Kishwar Kommentarbild App

جنرل راحیل شریف پاکستانی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ایک کامیاب، پُرعزم اور قابل تحسین شخصیت کی حیثیت سے عوام اور پاکستانی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ جدید دور روایتی ہتھیاروں سے جھگڑنے اور ان کا استعمال کرنے کا دور نہیں بلکہ یہ دور ہے میڈیا کوریج کے مقابلے کا اور یقیناً راحیل شریف نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے اپنی اور فوج کی کارکردگی اور خدمات کو منظر عام پر لانے میں کامیاب رہے بلکہ وہ ایک ایسی فوجی قائدانہ میراث چھوڑے جا رہے ہیں جس سے پاکستان کی آئندہ فوجی قیادت بھی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

1997ء میں جب نواز شریف دوسری بار پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے تو انہوں نے ملکی آئین سےشق نمبر 58 دو بی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ شاید انہوں نے یہ سوچ کر کیا تھا کہ آئندہ تینوں فوجی سربراہوں کی تقرری کا اہم فیصلہ وہ بطور وزیر اعظم خود کیا کریں گے جبکہ اس سے پہلے یہ حق ملکی صدر کو حاصل تھا۔ تب سے کم و بیش ہر بار آرمی چیف کی تقرری اور نام کا اعلان اچانک ہی ہوتا رہا ہے۔

پاکستان میں فوج کے نئے سربراہ کی تقرری کے لیے عموماً تھری اسٹارز جرنیلوں میں کسی کو منتخب کیا جاتا ہے تاہم اس مقصد کے لیے سب سے سینیئر جنرل کو فوجی سربراہ مقرر کرنے کے قاعدے کو ہمیشہ ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ وزیر اعظم کو تین ٹاپ رینکنگ فوجی افسران کے نام پیش کیے جاتے ہیں جبکہ اُن میں سے ایک کو منتخب کر نے کا حق وزیر اعظم کو حاصل ہے۔

آئندہ آرمی چیف کے عہدے کے لیے جن سینیئر ترین افسران کا نام لیے جارہے ہیں ان میں لیفٹیننٹ جنرل مقصود احمد، لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات، لیفٹیننٹ جنرل سید واجد حسین، لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خان اور لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم شامل ہیں۔

وزیر اعظم کی طرف سے جمعرات کو جنرل راحیل شریف کو وزیر اعظم ہاؤس میں الوداعی عشائیہ دیا گیا۔ اس موقع پر دیگر تھری اسٹار جرنلز کو بھی مدعو کیا گیا۔ وزیر اعظم کے چہرے پر ایک پریشان کُن تاثر دیکھنے میںآیا۔ ایسے نازک وقت میں راحیل شریف جیسے فوجی سربراہ کو الوداع کہنا میاں نواز شریف کے لیے آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا،’’میں آئندہ بھی راحیل شریف سے ملکی سلامتی کے معاملات میں مشورے لیتا رہوں گا۔‘‘

Pakistan Ministerpräsident Sharif und Armeechef Sharif weihen Autobahn ein
تصویر: ISPR

دوسری طرف پاکستان کے آئندہ فوجی سربراہ کو بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ ایک طرف لائن آف کنٹرول ہے اور دوسری جانب ’ضرب عضب‘ کو جاری رکھنے کا چیلنج۔ کیا پاکستانی فوج کا آئندہ سربراہ ان دونوں پر بہتر طریقے سے اپنی گرفت قائم رکھ سکے گا؟ یہ سوال یقیناﹰ نواز شریف کے لیے بھی اہم ہے اور ملکی عوام بھی انہی سوالات کو اُٹھا رہے ہیں۔