1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا اور روس کے بیچ ترکی ’سینڈوِچ‘ بنتا ہوا

عاطف بلوچ، روئٹرز
9 اپریل 2017

شام میں امریکی میزائل حملوں کے بعد ترکی نے زور دیا ہے کہ واشنگٹن کو صدراسد کے خلاف زیادہ سخت ایکشن لینا چاہیے۔ تاہم انقرہ کے اس مؤقف کے باعث اُس کی ماسکو کے ساتھ مفاہمت کی کوششوں کو نقصان پہنچنے کا امکان زیادہ ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2awkL
Russland Wladimir Putin und Recep Tayyip Erdogan in Moskau
تصویر: Reuters/A. Zemlianichenko

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا کو شامی صدر بشار الاسد کے خلاف زیادہ سخت ایکشن لینا چاہیے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب امریکا نے شام کی چھ سالہ خانہ جنگی  کے دوران پہلی مرتبہ شامی فورسز کو براہ راست نشانہ بنایا ہے۔

شام پر دوبارہ میزائل حملے کیے جا سکتے ہیں، امریکا

شام پر امریکی میزائل حملے، عالمی ردعمل میں تعریف بھی تنقید بھی

شام میں زہریلی گیس کا حملہ: امریکا اور روس پھر آمنے سامنے

ان امریکی فضائی حملوں  کے کچھ گھنٹوں بعد ہی ایردوآن نے اس عسکری کارروائی کو صدر بشار الاسد کی طرف سے کیے جانے والے مبینہ جنگی جرائم کے تناظر میں ’مثبت اور درست قدم‘ قرار دے دیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے عالمی برداری سے مطالبہ کیا کہ اسد کے خلاف زیادہ مؤثر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ملک ترکی ایک طرف تو شام کے معاملے پر امریکا کے ساتھ زیادہ تعاون کا خواہاں ہے تو دوسری طرف اسد کے حامی ملک روس کے ساتھ بھی مفاہمت کی کوششوں میں ہے۔ تاہم سکیورٹی مبصرین کے مطابق شامی حکومت کے خلاف امریکا کی براہ راست کارروائی محدود ہی رہے گی۔

تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے وابستہ ایرون شٹائن کے مطابق ترک حکومت نہ تو امریکا کے ساتھ  اور نہ ہی روس کے ساتھ مل کر شام میں حکومت کو تبدیل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں انقرہ حکومت روس اور امریکا کے بیچ سینڈوچ بن کر رہ جائے گی۔

ترکی کی کوشش ہے کہ شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے الگ کر دیا جائے۔ امریکا بھی یہی چاہتا ہے لیکن ماسکو حکومت اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کی مخالفت کرتی ہے۔ ماسکو اور شامی صدر کا کہنا ہے کہ شام کے مستقبل کا فیصلہ عوام کو ہی کرنا چاہیے اور اس مقصد کی خاطر بیرونی حل مسلط کرنا پائیدار ثابت  نہیں ہو سکتا۔

استنبول پالیسی سینٹر سے وابستہ تجزیہ نگار اور سابق فوجی افسر متین گورکان کے مطابق شام کے مستقبل کے بارے میں امریکا اور روس کے مابین ایک کشمکش کا سلسلہ جاری ہے اور ترکی ان دونوں ممالک کے بیچ پھنسا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کبھی ترکی امریکا کے ساتھ ہوتا ہے تو کبھی روس کے ساتھ۔ گورکان کے بقول اس صورتحال میں ترکی شامی تنازعے کی حل کی کوششوں کے سلسلے میں ایک ناقابل اعتبار فریق بن سکتا ہے۔