1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا، شمالی کوریا کے تصادم کا شدید خطرہ: بڑی طاقتیں پریشان

مقبول ملک روئٹرز، اے پی
11 اگست 2017

امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر شمالی کوریا نے کوئی ’کم عقلی‘ کی تو واشنگٹن فوراﹰ فوجی جواب دینے سے ہچکچائے گا نہیں۔ اسی دوران امریکا اور کمیونسٹ کوریا کے مابین تصادم کے ’شدید خطرے‘ پر ماسکو کو بھی بہت پریشانی ہے۔

https://p.dw.com/p/2i5QO
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن، دائیں، اور امریکی صدر ٹرمپتصویر: picture alliance/dpa/AP/A. Young-joon

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعہ گیارہ اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں جمعے کے روز کہا کہ شمالی کوریا کو کوئی بھی ’غیر دانش مندانہ کام‘ نہیں کرنا چاہیے، دوسری صورت میں ’معاملے کا فوجی حل نکالنے‘ میں کوئی تاخیر نہیں کی جائے گی۔

امریکی صدر نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’معاملے کے کسی بھی عسکری حل کے لیے اقدامات اپنی جگہ بالکل تیار ہیں۔ (ہتھیار) لوڈ شدہ حالت میں ہیں۔ امید ہے کہ (شمالی کوریا کے رہنما) کم جونگ اُن کوئی دوسرا راستہ ہی اپنائیں گے۔‘‘

’شمالی کوریا امریکا پر پہلے حملہ کرے، تو چین غیرجانبدار رہے‘

امریکا شمالی کوریا: اشتعال انگیزی بڑھتی جا رہی ہے

’’مستقبل قریب میں جوہری جنگ کا خطرہ‘‘

امریکا کا ’غصہ اور آگ‘

امریکی صدر نے اسی ہفتے یہ بھی کہا تھا کہ اگر شمالی کوریا نے امریکا کو دھمکیاں دینا بند نہ کیں، تو اسے امریکا کے ’غصے اور آگ‘ کا سامنا کرنا ہو گا۔ اس پر پیونگ یانگ میں کمیونسٹ کوریا کی قیادت نے یہ دھمکی بھی دے دی تھی کہ وہ بحرالکاہل میں امریکی انتظامی جزیرے گوآم پر بیلسٹک میزائلوں کے ایک پورے سلسلے کے ساتھ حملے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔

Karte Guam Hawaii Nordkorea USA ENG

ج‍زیرہ نما کوریا پر شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین پائی جانے والی شدید کشیدگی اور کمیونسٹ کوریا کے امریکا کے ساتھ انتہائی سخت اور دھمکی آمیز بیانات کے اس تبادلے پر روس نے بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

Belgien - Lawrow und Reynders in Brüssel
روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروفتصویر: picture alliance/TASS/dpa/A. Shcherbak

فوجی تصادم کا ’شدید خطرہ‘

روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے جمعے کے روز ماسکو میں کہا کہ شمالی کوریا کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پیونگ یانگ اور امریکا کے مابین عسکری تصادم کا ’شدید خطرہ‘ ہے اور ماسکو کو فریقین کے مابین جذباتی نوعیت کی فوجی دھمکیوں کے اس تبادلے پر گہری تشویش ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق سیرگئی لاوروف نے روس کے سرکاری ٹیلی وژن پر طلبا کے ایک لائیو پروگرام میں شرکت کے دوران کہا، ’’(امریکا اور شمالی کوریا میں سے) جو فریق زیادہ مضبوط اور عقل مند ہے، اسے اس بحران کے حل کے لیے پہلا قدم اٹھانا چاہیے۔‘‘

روئٹرز کے مطابق روسی وزیر خارجہ نے شمالی کوریا اور امریکا سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ اس مشترکہ روسی چینی منصوبے پر دستخط کر دیں، جس کے تحت شمالی کوریا کو اپنے ایٹمی اور میزائل پروگراموں کو منجمد کر دینا چاہیے اور امریکا اور جنوبی کوریا بھی وسیع پیمانے پر اپنی مشترکہ فوجی مشقوں پر پابندی لگا دیں۔

شمالی کوريا کو ’آگ اور غصے‘ کا سامنا ہے، ٹرمپ

شمالی کوریا کے ساتھ فوری مذاکرات کا امکان نہیں ہے، ٹِلرسن

شمالی کوریا کے خلاف پابندیاں، چین اور روس بھی امریکا کے ساتھ

دریں اثناء امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ایک ترجمان نے جمعہ گیارہ اگست کے روز بتایا کہ امریکا اور جزیرہ نما کوریا پر اس کے قریبی اتحادی جنوبی کوریا نے اپنی سالانہ مشترکہ فوجی مشقوں کا جو پروگرام بنا رکھا ہے، وہ ممکنہ طور پر 21 اگست سے شروع ہو جائیں گی۔

Essen CDU-Bundesparteitag Rede Merkel
جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

جرمنی کس کا ساتھ دے گا؟

ادھر جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں میں وفاقی چانسلر انگیلا میرکل کے اس بیان کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پیونگ یانگ اور واشنگٹن کے مابین عسکری نوعیت کی جو جذباتی بیان بازی ہو رہی ہے، وہ ان دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کے کسی ممکنہ حل میں معاون نہیں ہو گی۔

چانسلر میرکل نے کہا کہ امریکا اور شمالی کوریا دونوں کو ہی اپنی اپنی بیان بازی میں جذباتیت کو کم کرنا ہو گا۔ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جرمن سربراہ حکومت سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر امریکا اور شمالی کوریا کے مابین فوجی تصادم شروع ہو گیا، تو کیا جرمنی نیٹو کے ایک رکن ملک کے طور پر امریکا کے ساتھ کھڑا ہو گا، تو انگیلا میرکل نے کہا، ’’مجھے کوئی فوجی حل نظر نہیں آتا۔ میری رائے میں یہ غیر ضروری ہو گا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس مسئلے کے حل کے لیے اپنی کاوشیں کرتے رہنا چاہیے۔‘‘