1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا میں آخر ہوا کیا؟ ٹرمپ کی کامیابی کو سمجھنے کی کوششیں

علی کیفی جُولیا ہِٹس
26 جنوری 2017

امریکا میں ہو کیا رہا ہے؟ امریکی عوام ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا کے لیے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی ناقابلِ فہم ہے۔ آئیے اس کامیابی کو ادب و فن اور ثقافتی تاریخ کی روشنی میں سجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2WRS0
Filmstill von George Orwells "1984"
ناول ’’1984‘‘ پر بنی فلم کا ایک منظر: پراپیگنڈے کی مدد سے لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ ’جنگ امن ہے، آزادی غلامی ہے اور جہالت طاقت ہے‘تصویر: picture-alliance/akg-images

صدارتی انتخابات میں اپنی کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں امریکی ٹی وی چینل سی این این کے ایک رپورٹر پر ’فیک نیوز‘ یا جعلی خبریں نشر کرنے کی تہمت لگائی تھی۔ اور اسی رپورٹر نے پہلی مرتبہ ٹرمپ کی کامیابی کو مشہور برطانوی ادیب جارج اوروَیل کے کلاسیکی ناول ’’1984‘‘ سے جوڑا تھا اور یہ ناول دیکھتے ہی دیکھتے ایمیزون کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست میں پہلی پوزیشن پر آ گیا۔

اس پریس کانفرنس میں ٹرمپ کے ترجمان شین سپائسر نے کہا کہ کسی بھی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں عوام کی اتنی بڑی تعداد نہیں آئی، جتنی ٹرمپ کے لیے آئی۔ جب اس بات پر تنقید ہوئی اور متعدد حوالوں سے اس بیان کو غلط ثابت کیا گیا تو ٹرمپ کی میڈیا ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ شین سپائسر ’جھوٹ‘ نہیں بول رہے تھے بلکہ محض ’متبادل حقائق‘ بیان کر رہے تھے۔

1949ء میں شائع ہونے والے ناول ’’1984‘‘ میں بھی جارج اوروَیل نے ایک ایسے معاشرے کا نقشہ کھینچا تھا، جسے حکومت پوری طرح سے اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے اور مسلسل پراپیگنڈے سے لوگوں کی برین واشنگ کرتی رہتی ہے۔ اس پراپیگنڈے میں زبان کا ایک مخصوص طریقے سے استعمال مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ اس ناول میں بتایا گیا ہے کہ کیسے اُس معاشرے پر حکومت کرنے والے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے زبان کو مصنوعی طریقے سے تبدیل کر دیتے ہیں۔ ٹرمپ کے ترجمانوں کی جانب سے ’متبادل حقائق‘ کی اصطلاح کے استعمال کے بعد اب ناول ’’1984‘‘ سے لیے گئے اقتباسات ٹوئٹر پر ’آلٹرنیٹیو فیکٹس‘ کے اکاؤنٹ پر گردش کرنے لگے ہیں۔

تاہم ’’1984‘‘ وہ واحد ناول نہیں ہے، جس کی مدد سے امریکی عوام ٹرمپ کی کامیابی کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ایک سو کتابوں میں اچانک 1930ء کے عشرے میں شائع ہونے والے دیگر کلاسیکی ناول بھی شامل ہو گئے ہیں، جیسے کہ جارج سِنکلیئر کا ’اِٹ کانٹ ہیپن ہیئر‘، آلڈس ہکسلے کا ’بریو نیو ورلڈ‘ یا پھر حانا آرینٹ کا ’دی اوریجنز آف ٹوٹیلی ٹیرین ازم‘۔

اخبار نیویارک ٹائمز نے ’متبادل حقائق‘ کے حوالے سے ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب کی منظر کشی کچھ یوں کی: مسٹر ٹرمپ نے کہا: ’’جب مَیں نے اپنی حلف برداری کے بعد اپنا خطاب شروع کیا تو بارش کے چند ایک قطرے تو مجھ پر گرے لیکن پھر مطلع صاف ہو گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بارش رُک گئی اور سورج نکل آیا۔ اور جیسے ہی مَیں نے اپنا خطاب ختم کیا، بارش پھر شروع ہو گئی۔‘‘

نیویارک ٹائمز نے وضاحت کی کہ جیسے ہی ٹرمپ نے اپنا خطاب شروع کیا، ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی، جو نہ صرف ٹرمپ کے اٹھارہ منٹ دورانیے کے پورے خطاب کے دوران بلکہ بعد میں بھی جاری رہی تھی۔

ہالینڈ کی ایک خاتون صحافی نے نیویارک ٹائمز کی اس منظر کشی پر بیلجیم کے مشہور ماورائے حقیقت پسند مصور رین ماگریٹ کی ایک تصویر کا تبدیل کیا گیا ورژن چسپاں کیا اور کہا کہ ٹرمپ کی کامیابی کو ماورائے حقیقت پسندانہ مصوری ہی کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔

ہالینڈ ہی میں ٹرمپ کے بطور صدر پہلے خطاب پر ردعمل ایک ٹی وی اشتہار کے ذریعے ظاہر کیا گیا۔ اس اشتہار میں ٹرمپ کی تقریر کو ہالینڈ اور یورپ پر منطبق کیا گیا ہے۔

ٹوئٹر پر #alternativefacts (متبادل حقائق) کے ہیش ٹیگ پر پوری دُنیا سے تبصرے کیے جا رہے ہیں اور ایسے ایسے ’غلط حقائق‘ بیان کیے جا رہے ہیں کہ جن کی مثال نہیں ملتی۔