1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا: کانگریس کے دو اراکین کا پاکستان مخالف بل

عبدالستار، اسلام آباد21 ستمبر 2016

پاکستانی وزیرِ اعظم کے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ایک دن پہلے امریکی کانگریس کے دو اراکین نے ایک ایسا بل پیش کیا ہے، جس کا مقصد پاکستان کو ایک ایسی ریاست قرار دینا ہے، جو ’دہشت گردی کی معاونت‘ کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1K6B8
USA Repräsentantenhaus
تصویر: Imago/M. Aurich

یہ بل اراکین کانگریس ٹیڈ پو اور ڈینا روہرابیکر کی طرف سے پیش کیا گیا ہے۔ بل میں کہا گیا ہے، ’’پاکستان نہ صرف نا قابلِ بھروسہ اتحادی ہے بلکہ اس نے کئی برسوں امریکا کے دشمنوں کی معاونت اور اعانت کی ہے۔اسامہ بن لادن کو پناہ دینے سے لے کر حقانی نیٹ ورک سے قریبی تعلقات تک یہ بات واضح ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں کس طرف ہے اور یقیناً وہ اس جنگ میں امریکا کے ساتھ نہیں ہے۔‘‘

یہ بل امریکی انتظامیہ کو اس بات کا پابند بنائے گا کہ وہ اس سوال کا باضابطہ جواب دے۔ اس بل کے پاس ہونے کے نوے دن کے اندر اندر امریکی صدر ایک رپورٹ جاری کرنے کا پابند ہوگا، جس میں تفصیل سے یہ بتایا جائے گا کہ آیا پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے خلاف مدد فراہم کی ہے یا نہیں۔ اس کے تیس دن کے بعد سکریڑی آف اسٹیٹ کی طرف سے ایک دوسری رپورٹ جاری کی جائے گی، جس میں یا تو اس بات کا واضح طور پر تعین کیا جائے گا کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جو دہشت گردی کی اعانت کرتی ہے یا پھر تفصیل سے اس بات کا جواز پیش کیا جائے گا کہ ایسی ریاست کی تعریف پر پاکستان قانونی طور پر پورا نہیں اترتا۔ اس بل کے پیش کیے جانے سے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے اِس بل کے مضمرات پر بات چیت کرتے ہوئے وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ توصیف احمد نے کہا، ’’نان اسٹیٹ ایکڑزکے مسئلے پر امریکا، بھارت اور افغانستان ایک ہی رائے رکھتے ہیں۔ اس بل کا پیش ہونا ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اس سے پاکستان کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ ہماری امداد بند کی جا سکتی ہے اور ہم پر اقتصادی پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔‘‘

Dana Rohrabacher
ڈینا روہرابیکرتصویر: AP

لیکن کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں اِس بل پر فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ بریگیڈئیر ریٹائرڈ شوکت قادر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’امریکا میں ایک لابی بھارت کی حمایت کرتی ہے۔ اس لابی کی طرف سے اس طرح کے کام کیے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں اِس پر زیادہ فکر مند ہونے کے ضرورت نہیں۔ پاکستان کے پاس بہت سارے کارڈز ہیں، جن کو وہ دانائی سے کھیل سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی جغرافیائی حیثیت کو ہی اچھی طرح استعمال کریں تو یہ طریقہ ہمارے لیے بڑا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں پاکستانی سفارتکاری اتنی زیادہ بھی ناکام نہیں، جیسا کہ سمجھا جارہا ہے۔ امریکا اور افغانستان سے ہمارے تعلقات بہت اچھے نہیں ہیں لیکن چین اور روس سے ہمارے تعلقات بہتر خطوط پر استوار ہو رہے ہیں۔‘‘

قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہ ء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ فرحان حنیف صدیقی نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’امریکی نظامِ قانون سازی میں ایک رکنِ پارلیمان بہت آزادانہ انداز میں کام کرتا ہے۔ اُس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ ہر مسئلے پر پارٹی لائن کی پیروی کرے۔ اِسی لیے کئی اراکین مختلف لابی کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ ان دونوں اراکینِ کانگریس کے بارے میں بھی یہ ہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بھارتی لابی کے قریب ہیں۔‘‘

حنیف صدیقی کے مطابق ان اراکین نے حالیہ برسوں میں پاکستان پر مختلف حوالوں سے سخت تنقید کی ہے۔ کیپٹل ہل پر اس وقت پاکستان مخالف ماحول ہے، جسے ختم کرنے کے لیے پاکستان کو بھر پور کوششیں کرنا ہوں گی کیونکہ ایسا ماحول خطر ے کی گھنٹی بھی ثابت ہوسکتا ہے۔