1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ اور روس کے درمیان تخفیف اسلحہ پر مذاکرات

میرا جمال24 اپریل 2009

امریکہ اور روس کے سفارت کاروں نے جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے حوالے سے روم میں ہونے والے مذاکرات کو ’’تعمیری‘‘ قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/HdsR
تصویر: AP

دونوں ممالک کے سفارت کاروں نے آج جمعہ کے روز اٹلی کے دارالحکومت میں واقع امریکی سفارت خانے میں بات چیت کی جسے فریقین کے درمیان تخفیف اسلحہ سے متعلق نئے معاہدے کی تیاری سمجھا جارہا ہے۔

امریکی اور روسی سفارتکاروں کی ملاقات کا بنیادی مقصد جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے حوالے سے نئے معاہدے کی بنیاد فراہم کرنا تھا۔ فریقین کے مابین جوہری ہتھیاروں اوران کی ترسیل کے ذرائع میں کمی کرنے کے 1991ء کے معاہدے کی میعاد اس سال دسمبر میں پوری ہورہی ہے۔

دونوں ممالک کے سفارتکاروں نے روم منعقدہ ملاقات کے دوران جوہری ہتھیاروں میں مزید کمی پر رضامندی ظاہر کی۔ اس معاہدے کی کامیابی کی صورت میں امریکہ اور روس کے تعلقات میں بہتری آنے کے امکانات ہیں۔ نئے معاہدے کے سلسلے میں اگلے دو ماہ میں واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان مزید مذاکرات متوقع ہیں۔

G 20 Gipfelteilnehmer in London
لندن منعقدہ جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس میں بیس صنعتی ملکوں کے سربراہان نے موجودہ مالیاتی بحران پر تفصیلی بات چیت کی تھیتصویر: AP

بیس صنعتی ملکوں کے گروپ جی ٹوئنٹی کے حالیہ سربراہ اجلاس کے موقع پر امریکی صدر باراک اوباما اور روسی صدر دیمتری میدویدیف کے درمیان لندن میں ہونے والی ایک خصوصی ملاقات کے دوران تخفیف اسلحہ پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔

روسی وزارت خارجہ کے شعبہء برائے سلامتی اور تخفیف اسلحہ کے سربراہ Antonov Anatoly نے اس ملاقات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "فریقین پر امید ہیں کہ پہلے معاہدے کی میعاد پوری ہونے سے قبل ہی نیا معاہدہ تیار کرلیا جائے گا"۔

روم منعقدہ ملاقات سے قبل روسی چیف آف جنرل سٹاف نیکولائی ماکاروٴف نے صحافیوں کو بتایا کہ اگر نیا معاہدہ طے پاتا ہے تو روس اپنے جوہری ہتھیاروں میں خاطر خواہ کمی کرنے پر تیار ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئے معاہدے کی اہمیت 2002ء میں ہونے والے ماسکو معاہدے سے بھی زیادہ موثر ثابت ہوگی۔

باراک اوباما کے صدر بننے کے بعد روس اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کا نیا معاہدہ امریکی صدر کی اسلحہ کے خلاف مہم کے سلسلے میں پہلا مثبت قدم ثابت ہوگا۔

دریں اثناء اوباما کی جوہری ہتھیاروں کے خلاف حکمت عملی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سابق روسی صدر میخائل گورباچوف نے کہا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کے سلسلے میں گفتگو اس وقت تک بے سود ثابت ہوگی جب تک امریکہ خود اپنی ’’عسکری فوقیت کو برقرار رکھتے ہوئے دوسرے ملکوں کو جوہری اسلحہ ترک کرنے کو کہے گا۔‘‘