1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ میں خاتون کی سزائے موت پر عملدرآمد کل ہوگا

22 ستمبر 2010

گزشتہ تقریباً ایک سو برس میں پہلی مرتبہ امریکہ میں کسی خاتون کے لئے سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد جمعرات کوکیا جا رہا ہے۔ اس سزا پر عملدرآمد کے لئے مجرمہ کو جان لیوا انجکشن لگایا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/PIjw
ٹریسا لوئیستصویر: AP

امریکی ریاست ورجینیا کے گورنر باب میکڈونل نے مجرمہ ٹریسا لوئیس کی سزا پر نظرثانی اپیل کو مسترد کردیا ہے۔ گورنر کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں امریکی سپریم کورٹ کی مداخلت سے ہی مجرمہ کی سزا کو مؤخر یا منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکی سپریم کورٹ نے بھی ٹریسا لوئیس کی موت کی سزا پر نظرثانی کی درخواست خارج کردی ہے۔ اس مناسبت سے عدالت عظمیٰ نے مختصر سا حکم جاری کیا۔

گورنر نے مجرمہ کی رحم کی اپیل مسترد کردی ہے۔ وکیل صفائی جیمز روکاپ کا کہنا ہے کہ ان کوکچھ اور شواہد حاصل ہوئے ہیں اور ان سے مجرمہ کی جاں بخشی ہو سکتی ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا اور وکیل صفائی کی آخری کوشش بھی ناکام ہو گئی ہے۔ روکاپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقتولہ ذہنی طور پر نارمل بھی نہیں ہے اور قتل کی واردات میں شامل ایک شخص کا کہنا ہے کہ اس نے مجرمہ کے ساتھ سازباز کی تھی۔

Todesstrafe - John Byrd Jr. starb durch den elektrischen Stuhl
امریکہ میں الیکٹرک کرسی پر موت کی سزا کے بعد لاش ہٹانے کا عملتصویر: AP

جمعرات کو مجرمہ ٹریسا لوئیس کی سزا پر عملدرآمدتقریباً یقینی ہو گیا ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے اپیل مسترد کردی ہے۔ اس صورت میں وہ گزشتہ تقریباً ایک سو سال کی تاریخ میں موت کی سزا کا سامنا کرنے والی پہلی خاتون ہوں گی۔ سن 1912 میں ورجینیا ریاست ہی میں ایک سترہ سالہ سیاہ فام خاتون ورجینیاکرسیٹئن کو الیکٹرک کرسی پر بٹھا کر موت کی سزا دی گئی تھی۔ امریکہ میں سن 1976 میں موت کی سزا پر دوبارہ عمل شروع کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک کل ایک ہزار215 افراد کو عدالت کی جانب سے سنائی گئی موت کی سزا پر عمل کیا جا چکا ہے۔ جمعرات کو ٹریسا لوئیس کو جان لیوا انجکشن لگا دیا گیا تو وہ موت کی سزا پانے والی بارہویں خاتون ہوں گے۔ مجرمہ ٹریسا لوئیس کو سردست موت کی کوٹھری میں منتقل کردیا گیا ہے۔

ٹریسا لوئیس پر الزام تھا کہ اس نے دونوجوان مردوں کے توسط سے اپنے شوہر اور سوتیلے بیٹے کو سن 2002 میں قتل کروادیا تھا۔ قتل کا محرک اس کے شوہر کی ساڑھے تین لاکھ ڈالر کی انشورنس پالیسی تھی۔ قتل کے وقت مجرمہ کے سوتیلے بیٹے کی عمر پچیس برس تھی۔ اس نے عدالت میں اعتراف کیا تھا کہ اس نے فیملی ٹرالر کا دروازہ جان بوجھ کرکھلا چھوڑا تھا تا کہ کرائے کے دونوں قاتل باپ بیٹے کو ہلاک کر سکیں۔ قتل میں شامل دونوں نوجوان لڑکوں کو بغیر رہائی یا پیرول کی شرط کے عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ شریک مجرموں میں ایک شالنبرگر نے سن 2006 میں جیل ہی میں خودکشی کر لی تھی۔

مجرمہ کی ذہنی حالت پر بھی وکیل صفائی نے دلائل پیش کئے تھے لیکن ماہرین نفسیات کے ذہنی آزمائش کے ٹیسٹ میں اس کا سکور ستّر تھا جو ایک نارمل شخص کا ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر عدالت نے مجرمہ کے ذہنی مریض ہونے کو تسلیم نہیں کیا۔ امریکی سپریم کورٹ نے ذہنی طور پر معذور افراد کو موت کی سزا دینے کو ایک فیصلے کے تحت ختم کر دیا تھا۔

دوسری جانب ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے امریکہ کے اس کیس پر مغربی میڈیا کی خاموشی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں