1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی حکومت کا سات سو ارب ڈالر کا امدادی پیکج

شہاب احمد صدیقی 29 ستمبر 2008

ٹیکس دہندہ عوام کے پیسے سے اس خطیر رقم کو خرچ کرنے کا صرف ایک جواز ہے اور وہ یہ کہ اس طرح ایک عالمی تباہی یا ’’گلوبل کریش‘‘ سے بچا جا سکتا ہے ۔

https://p.dw.com/p/FR48
تصویر: AP

امریکی ریاست بینکوں سے ایسے قرضے خریدنے کے لئیے سات سو ارب ڈالر خرچ کرے گی جن کی قیمت سے کوئی واقف نہیں اور جن کا ایک بڑا حصہ بلکل بے قیمت ہی سمجھا جانا چاہیے۔ اس طرح بینکاروں کی غلطیوں، بے حد طمع، انتہائی غفلت، حماقت اور مجرمانہ طرز عمل کی انہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی جیسا کہ آزاد منڈی کی معیشت کے قواعد کے تحت ہونا چاہیے تھا بلکہ انہیں اس کا فائدہ پہنچے گا۔

انیس سو انتیس ء کے مالیاتی بحران کے بعد سے بینکوں کے سب سے بڑے بحران میں معیشت کے اس شعبے کے لئیے نظم کا ایک نیا ماڈل پیش کیا ہے جسے امیروں کے لئیے سوشلزم کہا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بینکوں نے جو منافع کمایا وہ تو امیروں کی نجی ملکیت بن گیا لیکن جو نقصان ہوا وہ ریاست کے سر پڑا ڈال دیا گیا یعنی ٹیکس دینے والے عوام کے سر پر۔ بینکوں نے پچیس سال پہلے جب خود کو حقیقی معیشت سے جدا کر لیا اور مالیاتی منڈیوں میں بہت زیادہ منافع کے پر خطر سودوں کا سلسلہ چلایا تو اس طرح انہوں نے منڈی کے تجارتی معیشی اصولوں کو بے اثر بنا ڈالا۔ ریاست کے ادارے یا تو مالیاتی منڈیوں کی نگرانی اور انہیں ضوابط کے تحت رکھنے کے سلسلے میں سوتے رہے اور یا پھر انہوں نے جان بوجھ کر اس سے چشم پوشی کی۔ لگایے جانے والے سرمایے پر پچیس فی صد یا اس سے بھی زیادہ منافع کو بلکل عام بات سمجھا گیا اور ہوس ذہنوں پر چھا گئی۔

یہ صحیح ہے کہ امریکی حکومت کے سات سو ارب ڈالر کے ذریعے بینکوں کو بچانے کے منصوبے کے بغیر دنیا بھر میں اسٹاک ایکسچینج کی منڈیاں اسی طرح کی تباہی سے دو چار ہو جائیں گی جیسا کہ انیس سو انتیس ء میں ہوا تھا۔ تاہم مالیاتی شعبے کے بچاؤ کے اس منصوبے کو آزاد منڈی کی معیشت کے اصولوں کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ٹیکس دہندہ عوام کے پیسے سے اس خطیر رقم کو خرچ کرنے کا صرف ایک جواز ہے اور وہ یہ کہ اس طرح ایک عالمی تباہی یا ’’گلوبل کریش‘‘ سے بچا جا سکتا ہے ۔ تا ہم آزاد منڈی کی معیشت کے اصولوں کے لحاظ سے اس معیشی گناہ کا دوسرا پہلو یہ ہونا چاہیے کہ بینکوں کی نگرانی کو سخت کر دیا جائے۔ اگر امریکی مالیاتی سرمایہ داری کو لگام دینے میں کامیابی نہیں ہوئی تو سات سو ارب ڈالر کی امداد کے بعد یہ کھیل از سر نو شروع ہو جائے گا کیو نکہ بینکوں اور اسٹاک ایکسچینج کے غیر سنجیدہ کاروبار میں جس ہوس کا ہاتھ تھا وہ اب بھی زندہ اور طاقتور ہے۔