1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش ایشیا کے دَورے پر

6 اگست 2008

منگل سے براعظیم ایشیا کا ایک ہفتے کا دَورہ شروع کرنے والے امریکی صدر بُش آج جنوبی کوریا میں اپنے مذاکرات کے بعد تھائی لینڈ پہنچ گئے،تاہم اُن کی اصل منزل چینی دارالحکومت بیجنگ میں اولمپک کھیلوں کی افتتاحی تقریب ہے۔

https://p.dw.com/p/ErY8
امریکہ اور جنوبی کوریا کے صدور بُش اور لی سیول میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔تصویر: AP

بدھ کے روز سیول میں امریکی صدر بُش اور اُن کے جنوبی کوریائی ہم منصب لی میُونگ باک کے باہمی مذاکرات میں افغانستان کا بھی ذکر آیا، تاہم افغانستان کے لئے جنوبی کوریائی فوجی دَستوں کی فراہمی پر بات نہیں ہوئی ۔ افغانستان کی تعمیرِ نو کے لئے جنوبی کوریائی امداد کا ذکر کرتے ہوئے بُش نے کہا:

’’مَیں نے افغانستان میں کوریا کی امدادی سرگرمیوں کے لئے صدر لی کا شکریہ ادا کیا ہے لیکن میری صرف غیر فوجی امداد پر بات ہوئی ہے۔ مَیں نے اُن سے کہا ہے کہ وہ جہاں تک ہو سکے، اِس تازہ تازہ جمہوریت متعارِف کروانے والے ملک کو غیر فوجی شعبوں میں مدد دیں۔‘‘

بُش نے کمیونسٹ شمالی کوریا پر زور دیا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کے خاتمے سے متعلق کئے گئے وعدوں کی مکمل طور پر پاسداری کرے۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’شر کی محور‘‘ ریاستوں کی امریکی فہرست سے اخراج کے لئے ابھی شمالی کوریا کو چند ایک شرائط پوری کرنا ہوں گی۔

’’پلوٹونیم پروگرام کے حوالے سے ابھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اگر شمالی کوریا ’’ایکسس آف ایوِل‘‘ یا ’’بدی کی محور‘‘ ریاستوں کی فہرست سے اخراج کا خواہاں ہےتو وہاں کی قیادت کو کچھ مخصوص فیصلے عمل میں لانا ہوں گے۔‘‘

Bush Asienreise August 2008 Süd Korea Proteste
بُش کے دَورے کے موقع پر سیول میں جنوبی کوریائی مظاہرین امریکہ سے گائے کے گوشت کی درآمد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔تصویر: AP

بُش نے چین میں مذہب اور اظہارِ رائے کی آزادیوں پر زور دیتے ہوئے کہا: ’’مَیں چینی رہنماؤں کے ساتھ گذشتہ ساڑھے سات سال سے مل رہا ہوں اور میرا پیغام ہمیشہ ایک ہی رہا ہے کہ وہاں کی قیادت کو اپنے معاشرے میں مذہب سے لگاؤ کھنے والے شہریوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اُلٹا یہ مذہبی لوگ آپ کے معاشرے کو بہتر بنائیں گے۔ اُنہیں اپنی رائے کے اظہار سے روکنا یا اُن کی عبادت پر پابندی لگانا ایک غلطی ہے۔ مَیں دو وجوہات کی بناء پر چین جا رہا ہوں۔ ایک تو چینی عوام کو یہ دکھانے کے لئے کہ مَیں اُن کا کتنا احترام کرتا ہوں اور دوسرا امریکی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے۔‘‘

بدھ ہی کے روز بُش جنوبی کوریا سے تھائی لینڈ پہنچ گئے۔ اِس ملک میں اُن کی آمد کا اصل مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کی توجہ ہمسایہ میانمار کی طرف دلائی جائے اور وہاں کی آمر فوجی حکومت پر دباؤ میں اضافہ کیا جائے۔ آٹھ اگست کا دن نہ صرف چین میں بیجنگ اولمپکس کے آغاز کا دِن ہے بلکہ اُس روز میانمار میں جمہوریت کے حق میں چلائی جانے والی اُس ملک گیر تحریک کو بھی بیس سال پورے ہو رہے ہیں، جسے فوج نے طاقت کے ذریعے کچل دیا تھا اور اندازاً تین ہزار افراد مارے گئے تھے۔

بُش تھائی لینڈ میں میانمار کے چند ایسے شہریوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھائیں گے، جنہوں نے بیس سال پہلے کی اِس تحریک میں حصہ لیا تھا۔ بُش کی اہلیہ لاؤرا تھائی سرحد پر جا کر برمی مہاجرین کے ایک کیمپ کا دَورہ کریں گی۔