امریکی صدر کا دورہِ فرانس اختتام پذیر
7 جون 2009D-Day کی 65 سالگرہ کی تقریبات میں حصہ لینے کے ساتھ ہی امریکی صدر باراک اوباما کا دورہ یورپ بھی اختتام کو پہنچا گیا۔ D-Day اس دن کو کہا جاتا ہے کہ جب چھ جون 1944 کو نازی جرمن دستوں کے خلاف اتحادی افواج مغربی یورپ میں داخل ہوئیں تھیں۔ ساتھ ہی اوباما نے ان امریکی فوجیوں کی قبروں پر حاضری دی ۔
امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے دورہ مشرقی وسطی اور یورپ کی آخری منزل فرانس میں ڈی ڈے کی تقریبات میں حصہ لیا۔ اس موقع پراوباما نے دوسری جنگ عظیم کے دوران نورمنڈی کے مقام پراتحادی افواج کی قربانیوں کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہیں بھول سکتے اورہمیں بھولنا بھی نہیں چاہیے کہ ڈی ڈے اس وقت اورجگہ سے عبارت ہے کہ جب چند لوگوں کی بہادری اور بے لوث کوشش نے پوری صدی کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔
ان تقریبات میں شرکت کے علاوہ اوباما نے فرانسیسی سربراہ مملکت نکولا سارکوزی سے ملاقات کی۔ ایک گھنٹے تک جاری رہنے والے اس بات چیت میں ایرانی جوہری پروگرام ، مشرق وسطی تنازعہ اور شمالی کوریا کے میزائل اور ایٹمی تجربوں سمیت کئی اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس موقع پرسارکوزی نے کہا کہ انہوں نے امریکی صدرکو یہ باورکرا دیا ہے کہ فرانس مشرق وسطی تنازعے کے سلسلے میں امریکہ کے دو ریاستی حل کی تجویز کی حمایت کرتا ہے۔
اوباما اور سارکوزی کے مابین تقریبا ہرموضوع پراتفاق نظر آیا۔ اس موقع پرسارکوزی نے کہا کہ انہیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ فرانس اورامریکہ پہلےکے مقابلے میں ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ گئے ہیں۔ اوباما نے یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی حمایت کی جبکہ سارکوزی اس سے متفق نظر نہیں آئے۔ امریکی صدر نے پیرس میں مشہور کلیسا نوٹرڈم کے دورے کے دوران کہا کہ وہ نکولا ساکوزی کو ایک دوست سمجھتے ہیں اوران کے خیال میں سارکوزی بھی ان کے لئے کچھ ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں۔
مریکی صدر کے دورہ فرانس پر تبصرہ کرتے ہوئے پیرس میں بین الاقوامی تعلقات عامہ کے ادارے IFRI کے سربراہ نے کہا کہ بہرصورت امریکی حکومت کے لئے فرانس یورپ کا سب سے اہم ملک نہیں ہے۔ اوباما انڈونیشا میں رہے ہیں جس وجہ سے ان کا ایشیا سے ایک تعلق بنتا ہے ساتھ ہی ان کا تعلق افریقہ سے بھی ہے۔ لیکن یورپ سے وہ کسی طرح سے بھی جڑے ہوئے نہیں ہیں۔ باراک اوباما اپنا دورہ مشرق وسطی اور یورپ مکمل کرنے کے بعد آج واپس امریکہ روانہ ہو رہے ہیں۔