1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی صدر کی پہلی پریس کانفرنس پر جرمن سیاسی حلقوں کا ردعمل

امجد علی11 فروری 2009

امریکی صدر باراک اوباما نے کل اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ایک بار پھر اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادی خطوط کی وضاحت کی۔ اوباما کی اِس پریس کانفرنس پر جرمنی کے سیاسی حلقوں نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Grdw
امریکی صدر باراک اوباماتصویر: AP

واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ وہ روسی صدر کوبھی تخفیفِ اسلحہ کے مزید اقدامات کے موضوع پرمذاکرات کی پیشکش کرچکے ہیں اوریہ امید بھی کررہے ہیں کہ امریکہ عنقریب ایک ہی میزپربیٹھا ایرانی سفارت کاروں کے ساتھ مذاکرات کررہا ہو گا۔ یہاں جرمنی میں امریکی صدر کی پہلی کانفرنس کا گہری نظر سے مشاہدہ کیا گیا۔

اپنی پہلی پریس کانفرنس میں امریکی صدر نے اُن باتوں کی تصدیق کردی، جن کا اعلان اُن کے نائب میونخ کی حالیہ سلامتی کانفرنس میں پہلے ہی کر چکے تھے۔ امریکہ روس کے ساتھ نئے تعلقات اور ایران کے ساتھ مذاکرات کا خواہاں ہے۔ جرمن وزارتِ خارجہ میں جرمن امریکی تعلقات کے رابطہ کار کارسٹن فوئگٹ کا کہنا ہے کہ اِس طرح کا لب و لہجہ اُنہوں نے ایک مدت سے نہیں سنا تھا:’’مجھے خوشی ہے۔ بات یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ دنیا کو درپیش مسائل اورچیلنجوں کواُسی نظرسے دیکھ رہی ہے، جس سے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہماری ترجیحات بھی گذشتہ برسوں کے برعکس کہیں زیادہ ملتی جلتی ہیں۔‘‘

روس کے ساتھ نئے مذاکرات کا اعلان ایک فیصلہ کن موڑ پر سامنے آیا ہے۔ رواں سال کے اواخر میں تخفیفِ اسلحہ کے اُس سٹارٹ معاہدے کی مدت ختم ہورہی ہے، جس کے بارے میں نئے مذاکرات شروع کرنے میں بُش انتظامیہ نے بہت کم دلچسپی دکھائی تھی۔ جرمن امریکی تغلقات کے جرمن رابطہ کار فوئگٹ کے خیال میں اب سٹارٹ معاہدے کا پس رومعاہدہ اِسی سال طے ہو جانے کے قوی امکانات ہیں۔

ایران کی جانب نئے امریکی لب و لہجے پربھی برلن حکومت اپنی پوری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ جرمن جماعت ایس پی ڈی یعنی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی پارلیمانی حزب کے خارجہ امور سے متعلق ترجمان گیرٹ وائِس کِرشَن کے مطابق اُنہیں اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ایران کے ساتھ بات چیت کی پیشکش میں امریکہ سنجیدہ ہے۔’’بات چیت کا موقع تو اب مل رہا ہے۔ اب تہران حکومت کو بھی دکھانا چاہیےکہ وہ اِس سنہری موقع سے مل جل کرفائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔‘‘

خارجہ امور کی پارلیمانی کمیٹی میں جرمن سیاسی جماعت سی ڈی یو یعنی کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے نمائندے وِلّی وِلمَر نے تخفیفِ اسلحہ کے ضمن میں اوبامہ کے ا علانات اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کے لئے نئی امریکی انتظامیہ کے جوش و خروش کا خیر مقدم کیا۔ تاہم اُنہوں نے اِس بات کو ہدفِ تنقید بھی بنایا کہ یورپی ممالک اپنی اپنی پوزیشن کا تعین کرنے کے لئے امریکہ کی طرف کچھ زیادہ ہی دیکھ رہے ہیں۔’’یہ اچھی بات ہے کہ واشنگٹن میں وہ الفاظ سننے میں آ رہے ہیں، جوچالیس برسوں تک یورپ اور امریکہ کے درمیان اچھے اشتراکِ عمل کو یقینی بناتے رہے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ یہ الفاظ فراموش کر دئے گئے بلکہ فوراً بعد ان کی جگہ اِن کے برعکس الفاظ نے لے لی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بات صرف الفاظ تک ہی محدود رہتی ہے یا اِنہیں ٹھوس سیاسی پالیسیوں سے مربوط بھی کیا جاتا ہے۔ ابھی اِن کی کڑی آزمائش ہونا باقی ہے۔‘‘

گویا یورپ کو صرف اورصرف واشنگٹن ہی کی جانب دیکھتے رہنے کی بجائے اپنے مخصوص مفادات کو بھی آگے بڑھانے کے لئے کام کرنا ہو گا۔ تاہم لبرل جماعت ایف ڈی پی یعنی فری ڈیموکریٹک پارٹی کی پارلیمان حزب کے ترجمان برائے امورِ خارجہ وَیرنر ہَوئیر کو اِس طرح کے خدشات پسند نہیں:’’مَیں یہ دیکھ رہا ہوں کہ برسلز اور خاص طور پر برلن میں ابھی بھی اِس بات کو جانچا جا رہا ہے کہ امریکہ میں تبدیلی کےعمل کی رفتارکیا ہوگی۔ جب صدراوباما خود بھی یہ کہتے ہیں اور اپنے ترجمانوں کے ذریعے بھی بار بار یہ پیغام دے رہے ہیں کہ امریکی صدر اُن باتوں پر قائم ہیں، جو اُنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مثلاً تخفیفِ اسلحہ کے سلسلے میں کہی تھیں تو ہمیں تو اِس پرخوش ہونا چاہیے نہ کہ ’چلو دیکھتے ہیں‘ کا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔‘‘

اُنہیں خدشہ ہے کہ جرمنی امریکی منصوبوں کے ساتھ زیادہ مضبوطی کے ساتھ جڑنے کا سنہری موقع گنوا بھی سکتا ہے۔ تاہم حکومتی نمائندے اِن خدشات کو درست نہیں سمجھتے۔ اُن کا خیال ہے کہ اگرامریکہ عملی اقدامات زیادہ سے زیادہ اپنے ہاتھ میں لے لے، توواشنگٹن میں اپنا موقف سنوانے کے کہیں زیادہ امکانات ہوں گے۔