1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی وزیر خارجہ بیجنگ میں

20 اکتوبر 2006

امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کے دورہء بیجنگ کے موقع پر امریکہ اور چین نے شمالی کوریا پر اپنے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں تعطل کے شکار چھ فریقی مذاکرات میں واپس آنے کے لئے زور دیا ہے۔ اِس دورے کے دوران بیجنگ حکومت نے ایک بار پھر یقین دلایا کہ شمالی کوریا پر سلامتی کونسل کی طرف سے عاید پابندیوں کو عملی شکل دینے کے سلسلے میں چین اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ بیجنگ سے Petra Aldenrath کی بھیجی ہوئی تفص

https://p.dw.com/p/DYIR
امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس بیجنگ میں چینی سربراہ مملکت ہُو ژِن تاؤ‎ کے ساتھ
امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس بیجنگ میں چینی سربراہ مملکت ہُو ژِن تاؤ‎ کے ساتھتصویر: AP

�لات

امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس آج کل براعظم ایشیا میں اپنے ہنگامی مشن پر ہیں اور ٹوکیو اور سیول میں اپنے مذاکرات کے بعد جمعہ کے روز چینی دارالحکومت بیجنگ میں تھیں، جہاں انہوں نے اپنے چینی ہم منصب لی جاؤ‎شِنگ کے ساتھ ملاقات کی۔ دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات میں یہ بات زیر بحث آئی کہ شمالی کوریا کی ایٹمی پالیسیوں کے حولے سے آئندہ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہیے۔

دونوں کے درمیان اِس بات پر اتفاق تھا کہ جزیرہ نمائے کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے کے ہدف کے حصول کے لئے کوششیں جاری رہنی چاہیں۔ تاہم چینی حکومت کا بدستور یہ مَوقِف ہے کہ ایسا کرتے ہوئے طاقت کا استعمال ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔

چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ شمالی کوریا کے ایٹمی تنازعے کا پر امن حل دونوں فریقوں کے مفاد میں ہے۔ اُنہوں نے کہا، چین امید کرتا ہے کہ تمام فریق ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ، محتاط رہتے ہوئے اور ذمہ داری کے ساتھ کوئی قدم اٹھائیں گے۔ مزید یہ کہ مکالمت اور پر امن ذرائع ہی سے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

چین کو سب سے زیادہ خوف اِس بات کا ہے کہ کہیں اُس کا کمیونسٹ ہمسایہ ملک شکست و ریخت کا شکار نہ ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر شمالی کوریا میں اَشیائے خوراک کی فراہمی کی صورتِ حال اور زیادہ خراب ہوئی اور انسانوں کو بھوک کے مسئلے کا اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ سامنا کرنا پڑا تو چین کو شمالی کوریا کے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایسے میں نصف ملین تک شمالی کوریائی باشندے ملک سے فرار ہو جائیں گے اور اُس باہمی سرحد کو عبور کرتے ہوئے چین میں داخل ہو جائیں گے، جہاں نگرانی کا نظام ابھی زیادہ سخت نہیں ہے۔

اس کے علاوہ طاقت کے مفادات کی وجہ سے بھی شمالی کوریا چین کے لئے بہت اہم ہے۔ چین کے لئے شمالی کوریا چین اور جنوبی کوریا کے درمیان ایک طرح کے بفر زون کا کام دے رہا ہے، جہاں امریکی فوجی دَستے تعینات ہیں۔ کم ژَونگ اِل کی معزولی کی صورت میں چین کو خدشہ ہے کہ امریکی دَستے سیدھے چینی سرحدوں پر آن پہنچیں گے۔

یہ قیاس آرائیاں بار بار سننے میں آتی ہیں کہ چین سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شمالی کوریا کے خلاف عاید پابندیوں کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہا۔ چنانچہ امریکی وزیر خارجہ نے اپنے دَورے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے چین کو انتباہ کیا۔

کونڈولیزا رائس نے کہا کہ اُنہوں نے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1718 پر مکمل شکل میں عملدرآمد کی اہمیت پر تبادلہء خیال کیا ہے تاکہ ایسے خطرناک غیر قانونی مادوں کی منتقلی اور تجارت کو روکا جا سکے، جو شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام سے تعلق رکھتے ہوں۔

دریں اثناء شمالی کوریا کے ساتھ ملنے والی چینی سرحد سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق بیجنگ حکومت نے ساز و سامان کی آمدورفت کی چیکنگ کو زیادہ سخت بنا دیا ہے۔ اِس سلسلے میں چینی وزیرِ خارجہ لی جاؤ‎شِنگ نے یقین دلایا کہ اقوامِ متحدہ کے رکن اور عالمی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے چین بدستور اپنی ذمہ داریاں نبھائے گا۔

اگرچہ شمالی کوریا کے ایٹمی دھماکے کے بعد چین کے اِس کمیونسٹ ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات پر کافی منفی اثر پڑا ہے لیکن چین کو بدستور ایسا ملک تصور کیا جاتا ہے، جسے پیانگ ژانگ میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے۔ دریں اثناء جنوبی کوریائی ذرائع ابلاغ کے مطابق کم ژَونگ اِل نے دورے پر گئے ہوئے سرکردہ چینی مندوب کو یہ بتایا ہے کہ شمالی کوریا کو اپنے ایٹمی دھماکے پر افسوس ہے اور اگر امریکہ مالیاتی پابندیاں عاید نہ کرے تو پیانگ ژانگ حکومت اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کے لئے تیار ہے۔