1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی امداد کے حوالے سے پہلی سمٹ کيا رنگ لائے گی؟

عاصم سليم / Anke Rasper 22 مئی 2016

پير سے ترکی ميں پہلی ورلڈ ہيومينيٹيرين سمٹ شروع ہو رہی ہے۔ ڈی ڈبليو نے اس سربراہی اجلاس ميں شرکت کرنے والی ايک ماہر کرسٹينا بينٹ سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ يہ سمٹ کيوں ضروری ہے اور آيا اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/1IsXl
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

انسانی امداد کے موضوع پر تاريخ ميں اپنی نوعيت کی پہلی سمٹ پير سے ترک شہر استنبول ميں شروع ہو رہی ہے۔ اس سربراہی اجلاس ميں جہاں دنيا بھر کے اہم ترين سياستدان، اقوام متحدہ کے کارکنان، غير سرکاری تنظيموں کے نمائندے، رضاکار اور نجی کمپنيوں کے نمائندے شرکت کريں گے، وہيں اس شعبے سے منسلک بہت سے محققين بھی اجتماع کا حصہ بنيں گے۔ ايسی ہی ايک ماہر برطانوی دارالحکومت لندن ميں قائم تھنک ٹينک ’اوور سيز ڈيویلپمنٹ انسٹيٹيوٹ‘ کی محققہ کرسٹينا بينٹ بھی ہيں، جنہوں نے ڈی ڈبليو سے خصوصی طور پر بات چيت کرتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اپنی نوعيت کی يہ پہلی سمٹ کيوں ضروری ہے اور آيا يہ اپنے اہداف حاصل کر بھی پائے گی۔

ڈی ڈبليو: آج کل بہت سے بين الاقوامی اجلاس منعقد ہو رہے ہيں، جيسا کہ عالمی موسمياتی کانفرنس، قدرتی آفات کے خطرات ميں کمی کے ليے سنڈھائی فريم ورک اور پائيدار ترقياتی ايجنڈے کے موضوع پر بھی عالمی سطح کا اجلاس۔ ان اجلاسوں ميں بہت سے موضوعات زير بحث آتے ہيں۔ ايسے ميں انسانی امداد کے موضوع پر ايک مختلف سمٹ کی کيا ضرورت ہے؟

کرسٹينا بينٹ: میرے خیال میں ہم خلق دوستوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ دنیا کو درپیش نئی مشکلات انسانی امداد یا فلاح کے شعبے پر کس طرح سے اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ امدادی سرگرمیاں ترقیاتی کاموں کا ایک حصہ ہیں، اس کا تعلق قدرتی آفات کے خطرے کو کم کرنے اور موسیماتی تبدیلیوں سے بھی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں یعنی انسانیت کی فلاح کے علم برداروں کو مزید دانشمندی سے سوچتے ہوئے یہ دیکھنا ہو گا کہ عالمی سطح پر ہم کس جگہ کھڑے ہیں۔

برطانوی دارالحکومت لندن ميں قائم تھنک ٹينک ’اوور سيز ڈيویلپمنٹ انسٹيٹيوٹ‘ کی محققہ کرسٹينا بينٹ
برطانوی دارالحکومت لندن ميں قائم تھنک ٹينک ’اوور سيز ڈيویلپمنٹ انسٹيٹيوٹ‘ کی محققہ کرسٹينا بينٹتصویر: ODI

ڈی ڈبليو: ’اوور سيز ڈيولپمنٹ انسٹيٹيوٹ‘ کی ايک رپورٹ ميں کہا گيا کہ انسانی بنيادوں پر امداد سے منسلک مختلف شعبوں کے موجودہ ڈھانچے شاید ناکافی ہیں۔ ايسا کيوں ہے؟

کرسٹينا بينٹ: کافی تحقيق کے بعد ہم اس نتيجے پر پہنچے ہيں کہ ’ہيومينيٹيرين سيکٹر‘ ميں پچھلے پچيس برسوں کی دوران متعارف کرائی جانے والی اصلاحات کوئی خاطر خواہ تبديلی لانے ميں ناکام ثابت ہوئی ہيں۔ موجودہ نظام ميں بہت سی اصلاحات ديکھی گئيں، خواہ وہ اداروں، نظام يا طريقہ کار ميں ہوں۔ تاہم وہ بنيادی اصلاحات نہيں ديکھی گئيں، جن کی در اصل نظام کو بہتر انداز ميں چلانے کے ليے ضرورت ہے۔

ڈی ڈبليو: آپ ايک ’ماڈرن‘ يا نئے دور کے ہيومينيٹيرين ايکشن کی تجويز دے رہی ہيں، اس سے آپ کا کيا مطلب ہے؟

کرسٹينا بينٹ: انسانی بنيادوں پر امداد کا نظام قريب پچھتر سال قبل وجود ميں آيا تھا۔ آج ہماری دنيا کو کہيں زيادہ قدرتی آفات اور ان سے نمٹنے کے ليے ماضی کے کے مقابلے ميں کافی زيادہ اخراجات کی ضرورت ہے۔ آج کل کے تنازعات کی نوعيت مختلف ہے، وہ ممالک کی بجائے مسلح گروپوں کے مابين ہوتے ہيں اور ان ميں ڈرونز جيسے نئے ہتھيار استعمال کيے جاتے ہيں۔ وہ نظام، وہ ڈھانچہ اور وہ ادارے جو 1945ء ميں وجود ميں آئے تھے، آج کے دور کے انسانی الميوں سے نمٹنے کے ليے کارآمد نہيں ہیں۔

سمٹ پير تيئس اور منگل چوبيس مئی کو استنبول ميں ہو رہی ہے
سمٹ پير تيئس اور منگل چوبيس مئی کو استنبول ميں ہو رہی ہےتصویر: picture alliance/AA/M. Keles

ڈی ڈبليو: کيا اس ہيومينيٹيرين سمٹ کے نتيجے ميں وہ بنيادی اصلاحات متعارف ہو سکيں گی، جن کا آپ ذکر کر رہی ہيں؟

کرسٹينا بينٹ: سربراہی اجلاس کے نتيجے ميں کچھ نہ کچھ تو ضرور ہو گا، کچھ نئے خيالات سامنے آئيں گے اور ڈونرز کی جانب سے اضافی مالی امداد کا اعلان کيا جائے گا۔ اگر ان اداروں کی بات کی جائے جو انسانی بنيادوں پر امدادی کاموں سے منسلک ہيں، تو ان کی جانب سے زيادہ شفافيت کے وعدے سامنے آ سکتے ہيں۔ يہ عوامل اہم تو ہيں ليکن ناکافی ہيں۔

اگر اس سيکٹر ميں ديگر اصلاحات کی بات کی جائے، تو انسانی بنيادوں پر امدادی کام کرنے والے بہت سے مقامی اور علاقائی اداروں اور نجی گروپوں کو ان ميں دلچسپی نہيں۔ ہميں آہستہ آہستہ نظام ميں تبديلی کی ضرورت ہے تاکہ نقطہ نظر ميں تبدیلی لائی جا سکے اور معاملات سے نمٹنے کا زيادہ مقامی انداز پيدا ہو۔