1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی حقوق کی مبینہ زیادتیاں: ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سعودی عرب پر تنقید

رپورٹ:ندیم گل، ادارت:افسراعوان22 جولائی 2009

ایمنٹسٹی انٹرنیشنل نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب دہشت گردی کے نام پر کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/Iuw6

حقوق انسانی کے اس عالمی ادارےکے مطابق ریاض حکومت تین ہزار سے زائد افراد کو خفیہ طور پر حراست میں رکھے ہوئے ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی کہا ہے کہ سعودی عرب میں دہشت گردی کے شبہے میں گرفتار بعض افراد کو دوران حراست قتل بھی کیا گیا۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ستمبر 2001 کےبعد سے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار افراد سے اقبال جرم کرانے کے لئے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

لندن میں قائم اس تنظیم نے سعودی سیکیورٹی اداروں کی جانب سے اس تشدد کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے ملزمان کو چھڑیوں سے بری طرح پیٹاجاتا ہے، کوڑے مارے جاتے ہیں، انہیں چھت سے الٹا لٹکادیا جاتا ہے، بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان پر نیند بھی حرام کر دی جاتی ہے۔

Saudi-Arabien König Abdullah mit Flagge
سعودی حکمران شاہ عبداللہتصویر: AP Graphics

غیرملکیوں کی رہائش گاہوں، تیل کی تنصیبات اور حکومتی عمارتوں پر حملوں کے بعد سعودی عرب نے گزشتہ کچھ سالوں کے دوران بڑے پیمانے پر القاعدہ ارکان کو گرفتارکیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عالمی برادری پر بھی سعودی حکومت کی ان کارروائیوں سے چشم پوشی برتنے کا الزام لگایا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے پروگرام کے سربراہ Malcolm Smart نے ایک پریس ریلیز میں سعودی عرب کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کو غیرمنصفانہ قرار دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں انسانی حقوق کی صورت حال پہلے ہی خراب ہے جبکہ موجودہ حالات میں یہ بدترین شکل اختیار کر گئی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب میں گرفتاریوں کا عمل یوں تو معمول ہے تاہم 2001 کے بعد وہاں گرفتاریوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں جون 2007 میں جاری کی جانے والی سعودی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا جس کے مطابق 2003 سے 2007 کے دوران نوہزار مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہاں تین ہزار 106 افراد ابھی تک زیرحراست ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی عرب میں بعض افراد کو حکومت پر تنقید کرنے کے باعث گرفتار کیا گیا جبکہ بیشتر کو امریکہ مخالف اسلامی گروپوں کی حمایت پر حراست میں لیا گیا جو مختلف حملوں میں ملوث ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ گرفتار شدگان پر مقدموں کو بھی خفیہ رکھا جاتا ہے۔ سزا کے طور پر ان پر جرمانے عائد کئے جاتے ہیں اور موت تک کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ تاہم گرفتار افراد کے نام اور ان کے خلاف عائد الزامات کی تفصیلات جاری نہیں کی جاتیں۔

Malcolm Smart کہتے ہیں کہ گرفتار افراد کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ بیشتر پر تو سالوں تک مقدمہ ہی نہیں چلایا جاتا جبکہ انہیں اپنا دفاع کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا۔