انسانی حقوق کی نئی محتسب سابقہ پولیس جنرل، روس میں واویلا
22 اپریل 2016ماسکو سے جمعہ بائیس اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹد پریس کی رپورٹوں کے مطابق اس 60 سالہ خاتون کا نام تاتیانا موسکالکووا ہے اور وہ روسی وزارت داخلہ میں ایک اعلیٰ پولیس اہلکار کے طور پر دو عشروں سے بھی زائد عرصے تک کام کر چکی ہیں۔ موسکالکووا روسی سکیورٹی فورسز میں اپنی ملازمت کے آخری برسوں میں پولیس کی ایک جنرل کے عہدے پر فائز تھیں۔
اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ’صرف روس‘ نامی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور اسی پارٹی کی طرف سے وہ اب دُوما کہلانے والے روسی پارلیمان کے ایوان زیریں کی رکن بھی ہیں۔
روس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نگران ملکی اہلکار کا عہدہ ’صدارتی محتسب برائے انسانی حقوق‘ کہلاتا ہے اور عام طور پر اس عہدے پر کسی بھی شخصیت کی تقرری صدارتی نامزدگی کے ذریعے کی جاتی ہے۔
اس مرتبہ لیکن صدر ولادیمیر پوٹن نے کسی کو بھی اس عہدے کے لیے نامزد نہیں کیا تھا، جس کے بعد قانون کے مطابق یہ انتخاب دُوما کو کرنا تھا۔ دُوما میں اس عہدے کے ’صرف روس‘ پارٹی نے اس سابقہ پولیس جنرل کو نامزد کیا تو صدر پوٹن کی حکمران جماعت ’متحدہ روس‘ نے اپنا کوئی امیدوار نامزد کرنے کی بجائے ’صرف روس‘ پارٹی کی اس خاتون امیدوار کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس پر تاتیانا موسکالکووا کی کامیابی کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں بچی تھی۔
اسی لیے آج جمعہ بائیس اپریل کو ہونے والی پارلیمانی رائے شماری میں اکثریتی رائے سے ریٹائرڈ پولیس جنرل تاتیانا موسکالکووا کو نئی روسی صدارتی محتسب برائے انسانی حقوق منتخب کر لیا گیا، جس کے کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا۔
روس میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم حلقوں اور کئی سیاسی اور سماجی نمائندوں کے واویلے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بقول تاتیانا موسکالکووا کے انتخاب کی صورت میں ملک میں پہلی بار وہ ہو گیا ہے، جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
ان حلقوں کا یہ الزام بھی ہے کہ صدارتی محتسب برائے انسانی حقوق کے طور پر موسکالکووا کو ’مفادات کے تصادم‘ کا سامنا ہو گا۔ اس لیے کہ وہ ملک کے اعلیٰ ترین سکیورٹی اہلکاروں میں سے ایک رہی ہیں اور روس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی زیادہ تر ملکی سکیورٹی فورسز پر ہی لگائے جاتے ہیں۔
ریٹائرڈ پولیس جنرنل موسکالکووا کی ان کے نئے ملکی عہدے پر انتخاب کے حوالے سے روس میں کس قدر عدم اطمینان پایا جاتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آج ہی یابلوکا پارٹی کے کارکنوں نے ماسکو میں دُوما کی عمارت کے سامنے عین اس وقت احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جب ایوان میں صدارتی محتسب کے چناؤ کے لیے رائے شماری ہو رہی تھی۔
موسکالکووا کے انتخاب کے مخالف حلقوں کی دلیل یہ ہے کہ روس میں صدارتی محتسب کے عہدے پر آج تک جتنی بھی شخصیات فائز رہی ہیں، ان میں سے ہر کسی نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے نمایاں جدوجہد کی تھی۔ لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اس منصب پر کوئی ایسی شخصیت نامزد یا منتخب کی گئی ہے، جس کا جمہوری جدوجہد کا ریکارڈ نہ ہونے کے برابر ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ موسکالکووا نے اپنے انتخاب کے بعد جو خطاب کیا، اس میں ان کا موقف بھی کافی قابل غور تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بیرون ملک رہنے والے روسیوں کے حقوق کا تحفظ بھی کریں گی۔ انہوں نے کہا، ’’میرے لیے اہم بات یہ ہے کہ روسی اقدار کا تحفظ کیا جائے، نہ کہ صرف کسی فرد واحد کے حقوق کا۔‘‘