1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی حقوق: ’ہم جنس پرستوں کو حاصل، تو ہمیں کیوں نہیں؟‘

23 دسمبر 2011

بہت سی مسلمان خواتین کے مطابق حجاب پہننا ایک ذاتی فیصلہ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کسی روایت کی زبردستی پیروی اور اپنی شناخت کے درمیان انسان اعتدال کی لکیر کہاں کھینچے؟

https://p.dw.com/p/13YSv
تصویر: AP

25 سالہ سارہ بنکارا الجزائر سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی جرمن شہری ہیں جنہوں نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف خیمار پہننا شروع کیا۔ خیمار حجاب ہی کی ایک ایسی قسم ہے جو سر سے پیر تک جسم کو برقعے کی طرح ڈھانپ دیتا ہے۔

فرانس اور بعض دیگر یورپی ممالک میں نقاب پر پابندی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں سارہ نے کہا، ’’جب ہم جنس پرستوں کی بات آتی ہے، تو یورپی معاشرہ اور حکومتیں انہیں اپنے جذبات کھل کر بیان کرنے کی آزادی دیتے ہیں۔ لیکن اگر لوگ، خاص طور پر مسلمان، اپنے مذہب کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو یہ لوگ ان کے خلاف ہو جاتے ہیں۔‘‘

سارہ کا خیمار ان کے اپنی جرمن سہیلیوں کے ساتھ گھومنے پھرنے اور ان کی بیچ گہری دوستی کے کبھی آڑے نہیں آیا۔ تاہم، بہت سے یورپی ممالک کی حکومتوں کا نظریہ سارہ اور ان کی سہیلیوں سے کافی الگ ہے۔

Migration Zuwanderungspolitik
کئی خواتین حجاب پہننتے ہوئے بھی یورپی معاشروں میں اچھی طرح گھل مل جاتی ہیںتصویر: AP

فرانس نے نقاب پہننے کے حوالے سے خواتین پر جبراﹰ پابندی عائد کی ہوئی ہے، جبکہ جرمنی میں سیکولر اداروں اور اسکولوں میں اساتذہ کا حجاب پہننا منع ہے۔ تاہم جرمن میڈیا میں بھی، 'Kopftuchdebatte' کے نام سے مشہور، یہ موضوع کافی عرصے سے زیرِ بحث ہے۔

بیلجیم کے قانون سازوں نے حال ہی میں عوامی مقامات پر خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی عائد کردی ہے۔ یورپی حکومتوں کے مطابق حجاب یورپ کی روایت و ثقافت کو قبول کرنے اور اس میں شامل ہونے کی خواہش کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔ کئی یورپی ممالک اور اُن میں رہنے والے لوگ حجاب کو جارحانہ سمجھتے ہیں۔

ترک نژاد جرمن شہری سعدیہ بلیکی اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ان کا حجاب پہننا ان کے لیے کئی مقام پر رکاوٹ کا باعث بنا۔ اُن کا کہنا تھا، ’’مُجھے یہاں کام تلاش کرنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے جرمن اسے ناپسند کرتے ہیں اور مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ میں اسے کیوں پہنتی ہوں۔‘‘

لیکن یورپ میں بہت سی مسلمان خواتین ایسی بھی ہیں، جو حجاب پہننے کے حق میں نہیں ہیں۔ ڈوئچے ویلے کی پروانہ علیزادہ کہتی ہیں کہ حجاب پہننا یا نہ پہننا مکمل طور پر ایک ذاتی فیصلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اسلام اس معاملے میں کسی بھی طرح سے عورت پر زبردستی نہیں کرتا۔‘‘

’میری شناخت‘

سارہ کے مطابق خیمار ان کی شناخت کو مکمل کرتا ہے، ’’میں نے اپنی زندگی کے معنی کے بارے بہت سوچا اور پھر میں نے نماز پڑھنا شروع کی۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میری زندگی میں کسی چیز کی کمی تھی اور تب میں نے خیمار پہننا شروع کیا جس نے مجھے مکمل ہونے کا احساس دیا۔‘‘

سعدیہ بلیکی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ حجاب ان کی زندگی میں کیا معنی رکھتا ہے، تو انہوں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا، ’’میرے خاندان کی سبھی خواتین حجاب پہنتی ہی۔ لیکن میں یہ دوسروں کے لیے نہیں بلکہ خود اپنے لیے پہنتی ہوں۔ میرے والدین مجھے اس معاملے میں کبھی مجبور نہیں کرتے۔‘‘

حجاب پر پابندی

یورپ میں حجاب پر پابندی کے حوالے سے ایک اور جرمن مسلمان خاتون کا کہنا تھا، ’’اگر ایسا ہوا تو میں جرمنی چھوڑ کر کسی دوسرے ملک ہجرت کر جاؤں گی۔ جہاں سب ٹھیک ہو اور جہاں مُجھے میرے حقوق حاصل ہوں۔‘‘

حجاب کے بارے میں بحث صرف مغربی ممالک تک ہی محدود نہیں ہے۔ بھارتی دارلحکومت نئی دہلی میں جامعہ ملیہ یونیورسٹی کی شعبہ صحافت کی ایک طالبہ عظمٰی فلک کو بھی اپنے حجاب کے حوالے سے اکثر مشکل سوالات کا جواب دینا پڑتا ہے۔ بعض اوقات تو ان کے دوستوں کی طرف سے بھی ’نامناسب ردِ عمل‘ دیکھنے میں آتا ہے۔

Frau mit Kopftuch in Frankreich
ماہرین کے بقول حجاب پہننا ایک ذاتی فیصلہ ہےتصویر: AP

عظمیٰ کے بقول، ’’اکثر لوگ مجھے گھورتے ہیں جیسے میں کوئی غلط کام کر رہی ہوں۔ شروع میں تو مجھے بہت عجیب لگتا تھا، لیکن اب میں اس کی عادی ہو چکی ہوں۔‘‘

یورپ میں حجاب پر پابندی کے معاملے نے مقبوضہ کشمیر کی نوجوان خواتین میں ایک تازہ بحث کو جنم دیا ہے، جہاں حجاب کے حق میں یا اس کے خلاف کوئی قوانین نہیں ہیں۔ سری نگر کے جموں اور کشمیر بینک کی ایک منیجر شاکرہ نبی کا کہنا ہے، ’’یہ ہماری زندگی ہے اور اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق بھی صرف ہمیں ہی ہے۔‘‘

ماہرین کا مؤقف

بون یونیورسٹی کے مرکز برائے ’اسلامک اسٹڈیز‘ کی پروفیسر ڈاکٹر سبین دامر گیلز ڈارف حجاب کرنے یا نہ کرنے کو ایک ذاتی معاملہ قرار دیتی ہیں، ’’عرب ممالک میں حجاب پہننا ایک عام بات ہے۔ تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ ایسا اپنے خاندان کے مردوں یا معاشرےکے دباؤ میں آ کر کر رہی ہیں یا اپنی مرضی سے۔ جو بھی ہو، لڑکیوں کوحجاب پہننے پر مجبور کرنا ایک خوفناک عمل ہے۔‘‘

ڈاکٹر سبین کے مطابق حجاب جبر یا مذہبی انتہا پسندی کی عکاسی نہیں کرتا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’یورپی حکومتیں ایک مشکل صورتحال میں ہیں۔ اسکولوں میں غیر جانبداری کو برقرار رکھنا ان کا قانونی فرض ہے۔‘‘

رپورٹ: بینش علی بھٹ

ترجمہ: عائشہ حسن

ادارت: افسر اعوان