1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسدادِ دہشت گردی عدالتیں، کارکردگی پر عدم اطمینان

1 جنوری 2011

پاکستان میں سال 2010ء کے دوران انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے 3261 مقدمات کا فیصلہ کیا جبکہ تقریباً 2 ہزار مقدمات اب بھی زیر التوا ہیں۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے عدالتوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/zsEw
سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلام آبادتصویر: AP

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں میں انسداد دہشت گردی کی 42 عدالتوں میں مجموعی طور پر 5 ہزار سے زائد مقدمات کی سماعت کی گئی۔ بلوچستان کی انسداد دہشت گردی کی 6 عدالتوں کی کارکردگی نسبتاً بہتر رہی، جہاں پر 227 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا جبکہ 114 زیر التوا رہے۔ زیر التوا مقدمات کے حوالے سے سب سے خراب صورتحال صوبہ سندھ میں رہی، جہاں 11 عدالتوں نے 340 مقدمات کا فیصلہ کیا اور 1027 مقدمات زیر التوا ہیں۔

انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے حوالے سے حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس کے بعد سپریم کورٹ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے عدالتوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

بیان کے مطابق چیف جسٹس نے سندھ میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو بہتر بنانے پر زور دیا۔

Iftikhar Chaudhry
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انسدادِ دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پارلیمان میں بہتر قانون سازی نہیں کی گئی۔ اس بارے میں سینئر قانون دان چوہدری نصیر کا کہنا ہے،''ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملہ کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پارلیمنٹ اس سلسلے میں قانون سازی کرے۔ تاکہ مملکت کے مفادات مجروح نہ ہوں۔ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ ہو سکے۔‘‘

اس کے علاوہ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی پاکستان میں کریمنل جسٹس کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ استغاثہ کی غیر معیاری کارکردگی کی وجہ سے اکثر دہشت گرد عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے رکن اسلم گھمن کا کہنا ہے کہ کرپشن بھی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا،''ایک طرف سرکار ہوتی ہے، دوسری طرف ملزم کا پرائیویٹ وکیل ہوتا ہے کیونکہ ملزمان سرکاری وکلاء کو اپروچ کر لیتے ہیں اس لئے ان کا معاملہ لٹکا رہتا ہے۔‘‘

حکومت نے جولائی 2010ء میں انسداد دہشت گردی قوانین میں سختی لانے کے حوالے سے جو ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا، اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عدالت دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث ملزمان کو ضمانت پر رہا نہیں کرے گی۔ تاہم یہ بل ا بھی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے پاس ہے اور معلوم نہیں کہ کب تک منظوری کے لئے ایوان میں پیش کیا جائے گا۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں