انفراریڈ دوربین کے ذریعے اجرام فلکی تک رسائی
19 نومبر 2009امریکی خلائی تحقیقی ادارے کے ایک اعلان کے مطابق یہ انفراریڈ فلکیاتی دوربین اگلے ماہ سے اپنا کام شروع کر دے گی۔ وائیڈ فیلڈ انفراریڈ سروے ایکسپلورر یا WISE نامی اس دوربین کی مدد سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسے اجرام فلکی کی واضح تصاویر انسانی رسائی میں آ جائیں گی، جو بہت کم روشنی، خلائی گرد و غبار اور دیگر عوامل کی بنا پر اب تک واضح طور پر نہیں دیکھے جا سکے تھے۔
یہ دوربین دسمبر میں ڈیلٹا ٹو نامی ایک راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجی جائے گی۔ دسمبر کی نو تاریخ کو یہ راکٹ کیلیفورنیا کی وینڈین برگ ایئر فورس بیس سے خلا میں چھوڑا جائے گا۔ ابتدائی طور پر یہ دوربین نظام شمسی کے مختلف سیاروں کی واضح تصاویر زمین پر بھیجے گی۔ تاہم ساتھ ہی اس دوربین کا ایک کام یہ بھی ہو گا کہ وہ زمین کے نظام شمسی سے باہر دوسری کہکشاؤں اور ستاروں کی تصاویر بھی زمین پر اپنے کنٹرول سینٹر کو بھیجے۔
ناسا کے مطابق اس پروجیکٹ پر 320 ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔ اس مشن کو چھ ماہ کے لئے خلا میں بھیجا جائے گا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس دوربین کی مدد سے ایسے اجرام فلکی کی بہت واضح تصاویر بھی حاصل ہو سکیں گی جنہیں آج تک بہت ہی حساس دوربینوں کی مدد سے بھی محض روشنی کے ایک ہلکے سے دھبے جیسا ہی دیکھا جا سکا تھا۔
لاس اینجیلز میں کیلیفورنیا یورنیورسٹی کے ایڈورڈ رائٹ اس مشن کے پرنسپل تفتیش کار ہیں۔ رائٹ کے مطابق: ’’ہمیں توقع ہے کہ ہم بہت سے سیاروں اور ستاروں کو دیکھ پائیں گے۔ ہم وہ سب کچھ دیکھنے جا رہے ہیں جو ابھی تک کوئی بھی نہیں دیکھ پایا ہے۔ اس دوربین کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات اگر میرے لئے بہت حیران کن نہ ہوئیں تو مجھے بڑی حیرت ہو گی۔‘‘
یہ دوربین ایک ایسی ٹینکی میں نصب کی گئی ہے، جس میں منجمد ہائیڈروجن بھری ہوئی ہے۔ یہ ہائیڈروجن اس دوربین سے بہترین نتائج کے حصول کے لئے درکار صفر ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب درجہ حرارت کو ممکن بنائے گی۔ اس دوربین کو ٹھوس ہائیڈروجن کی تہہ میں بند کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب انفراریڈ شعاعیں اپنا کام شروع کریں تو ان کی حدت دوربین کے درجہ حرارت میں تبدیلی کا باعث نہ بنے۔
اس دوربین کا اصل ہدف وہ ناکام ستارے ہوں گے جنہیں براؤن ڈوارفس یا "بھورے ٹھگنے" کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل مختلف گیسوں کے وہ خلائی گولے ہیں جو سورج سے کئی گنا چھوٹے ہیں۔ ان ستاروں کی زبردست گریویٹی یا قوت تجازب نے وہاں ان گیسوں کو ٹھوس بنا رکھا ہے۔ یہ ستارے خود روشنی پیدا نہیں کرتے۔ وہ زبردست قوت ثقل کے باعث باہر سے آنے والی روشنی کو بھی پوری طرح پلٹنے نہیں دیتے۔ تاہم قوت ثقل کا اثر انفراریڈ روشنی پر نہیں ہوتا۔ لہٰذا سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے انفراریڈ روشنی پڑنے پر یہ ستارے چمکتے ہیں اور اسی روشنی کی مدد سے ناسا کی جدید ترین دوربین کی آنکھ سے انہیں بہتر انداز سے دیکھا جا سکے گا۔
براؤن ڈوارفس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شاید زمین کے نظام شمسی سے دیگر ستاروں کے مقابلے میں زیادہ قریب ہوں۔ تاہم ان کے مبہم ہونے کی وجہ سے اب تک انہیں دیکھا نہیں جا سکا۔
سورج کے علاوہ زمین کے سب سے قریب ترین موجود ستارہ پروکسیما سینٹوری ہے۔ زمین سے اس ستارے کا فاصلہ چار نوری سالوں تک کا ہے۔ ناسا کے اس انفراریڈ دوربین پروجیکٹ کے ڈائریکٹر پیٹر آئزن ہارٹ کے مطابق شاید یہ ناکام ستارے زمین کے قریب ترین موجود پروکسیما سینٹوری سے بھی زیادہ قریب ہوں، اور انہیں اب تک دیکھا نہ جا سکا ہو۔ آئزن ہارٹ کے مطابق دو نظریات، ایک تو یہ کہ براؤن ڈوارفس کی تعداد دوسرے ستاروں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور دوسرا یہ ستارے زمین سے دیگر ستاروں کے مقابلے میں زیادہ قریب ہیں، وائز نامی اس دوربین کی مدد سے ان دونوں نظریات کی تصدیق ہو سکے گی۔
اس سے قبل 1983 میں بھی ناسا نے اپنا ایک انفراریڈ سکائی سروے مشن خلا کی طرف روانہ کیا تھا، جس کی مدد سے بہت سے ستاروں کو بہتر طور پر دیکھا جا سکا تھا۔ تاہم موجودہ مشن گزشتہ مشن کے مقابلے میں 500 گنا زیادہ حساس اور بہتر نتائج کا حامل ہو گا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : مقبول ملک