انقرہ بم حملے میں درجنوں ہلاکتیں، ترک رہنماؤں کے دورے منسوخ
18 فروری 2016ترکی کے نائب وزیراعظم نعمان کُورتُلموس نے بتایا کہ اِس دہشت گردانہ حملے کا نشانہ ایک فوجی قافلہ تھا اور اِس باعث ہلاک شدگان میں سویلین اور فوجی شامل ہیں۔ ترکی میں حکومت کے حامی اخبارات نے رپورٹ کیا ہے کہ جس شخص نے کار بم کے لیے بارودی مواد کو ریموٹ سے اڑایا تھا، اُس کی شناخت کار پر موجود انگلیوں کے نشانات سے کر لی گئی ہے اور وہ ایک مہاجر مرکز میں بطور شامی پناہ گزین رجسٹرڈ ہے۔ حکومت نواز اخبار صباح کے مطابق جس شخص نے کار بم کے لیے کارروائی کی ہے، وہ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کا کارکن ہے۔ اس اخباری بیان پر حکومتی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔
ترک وزیراعظم احمد داؤد اولو نے بم دھماکے کے بعد اپنا برسلز کا مجوزہ دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ اولو کے مطابق حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں کم از کم نو افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اِس حملے کا بھرپور جواب دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے حملے کی ذمہ داری جہادیوں اور کرد عسکریت پسندوں پر عائد کی ہے۔ ایردوآن نے بھی اپنے وزیر اعظم کی طرح وسطی ایشیائی ریاست آذربائیجان کا دورہ مؤخر کر دیا ہے۔ ترک صدر اور وزیراعظم کی حکمران جماعت نے اس حملے کو فوراً ہی ایک دہشت گردانہ عمل قرار دیا ہے۔
اس حملے کے حوالے سے روس نے جہاں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے، وہیں انقرہ اور عالمی برداری سے کہا ہے کہ ضرورت اِس امرکی ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے عالمی برادری متفق ہو جائے۔ امریکا نے بھی انقرہ حملے کی پُر زور انداز میں مذمت کرتے ہوئے فوجی اور سویلین ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینز اسٹولٹن برگ نے بھی کار بم حملے کو ایک بزدلانہ کارروائی قرار دیا اور کہا کہ اِس موقع پر نیٹو ترکی کے ساتھ کھڑا ہے۔ یورپی یونین نے بھی مشکل کی اِس گھڑی میں ترکی اور ترک عوام کا ساتھ دینے کا کہا ہے۔
ترکی کا خیال ہے کہ انقرہ کار بم حملے میں کرد عسکریت ملوث ہیں اوران کا تعلق کردوں کی سیاسی جماعتوں سے ہے۔ انقرہ حکومت کے نزدیک شام کی کردش ڈیموکریٹک یونین پارٹی اور پیپلز پروٹیکشن یونٹ بظاہر شام میں سرگرم ہیں لیکن یہ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی ہی کی ذیلی شاخیں ہیں اور دہشت گرد گروپ ہیں۔ تفتیش کار ان کے علاوہ ترکی کے انتہائی بائیں بازو کے گروپ پیپلز لبریشن پارٹی فرنٹ پر بھی نگاہ رکھے ہوئے ہیں کیونکہ یہ بھی استنبول میں قدرے ہلکی نوعیت کے حملوں میں ملوث رہ چکا ہے۔
کرد نیوز ایجنسی فراط کے مطابق کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کے ایک سینیئر لیڈر جمیل بائک کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ انقرہ میں ہونے والے حملے میں کون ملوث ہے لیکن ’کردستان میں حالیہ ایام کے دوران کیے گئے قتلِ عام کے خلاف ردِ عمل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘۔