1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انقرہ حکومت نے ڈی ڈبلیو کا ویڈیو مواد ضبط کر لیا

عدنان اسحاق 7 ستمبر 2016

ترک حکام نے نوجوانوں کے امور اور کھیلوں کے ملکی وزیر عاکف چغاتائی کی ’ڈی ڈبلیو‘ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کی ویڈیو ضبط کر لی ہے۔ انقرہ حکومت کی اس کارروائی کے بعد آزادی صحافت کے معاملے کو ایک مرتبہ پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Jwsa
تصویر: DW/M. Martin

ڈی ڈبلیو کے لیے یہ انٹرویو میزبان میشل فریڈمان نے انقرہ میں کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے نوجوانوں کے امور اور کھیلوں کے ملکی وزیر عاکف چغاتائی سے جولائی میں ناکام ہونے والی فوجی بغاوت کے موضوع پر بھی بات کی تھی۔ اس کے علاوہ اس انٹرویو میں حکومت گرانے کی ناکام کوشش کے بعد کی صورتحال، بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور معطّلیوں کے معاملے پر بھی سوال جواب ہوئے تھے۔

فریڈمان نے عاکف چغاتائی سے ذرائع ابلاغ کی آزادی اور ترک معاشرے میں خواتین کے مقام کے بارے میں بھی سوالات کیے۔ اس دوران میزبان نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے کچھ متنازعہ بیانات پر بھی اپنے مہمان سے ان کی رائے طلب کی تھی۔ تاہم انٹرویو کے فوری بعد عاکف چغاتائی معزرت کرتے ہوئے کمرے سے باہر چلے گئے۔

Peter Limbourg
یہ واقعہ ترکی میں آزادی صحافت کی صریحاً خلاف ورزی کا ایک ثبوت ہے، لمبورگتصویر: DW/M.Müller

ڈی ڈبلیو کے ترجمان کرسٹوف یمپلٹ نے بتایا، ’’ریکارڈنگ ختم ہونے کے بعد عاکف چغاتائی جیسے ہی باہر گئے تو ان کے ترجمان نے کہا کہ ڈوئچے ویلے یہ انٹرویو نشر نہیں کر سکتا۔ فریڈمان اور ان کی ٹیم نے اس پر احتجاج کیا، جس کے بعد ترک وزرات کھیل کے عملے نے تمام ویڈیو مواد ضبط کر لیا۔ یہ سب کچھ بہت زیادہ دباؤ میں کیا گیا۔‘‘

اس انٹرویو کو ڈی ڈبلیو کے پروگرام ’کنفلکٹ زون‘ میں نشر کیا جانا تھا، جو اپنے سخت اور چبھتے ہوئے سوالوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ترک وزیر کے لیے بھی فریڈمان کے سوالات کافی پریشان کن تھے۔ اس واقعے پر فریڈمان نے کہا، ’’یہ ثابت کرتا ہے کہ ترکی میں آزادی صحافت کس قدر محدود ہے‘‘۔

ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ نے ترک حکام کے رویے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے، ’’یہ واقعہ ترکی میں آزادی صحافت کی صریحاً خلاف ورزی کا ایک ثبوت ہے‘‘۔ ان کے بقول ڈی ڈبلیو تمام ویڈیو مواد کی واپسی کی کوششوں میں لگا ہوا ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ جرمنی میں صحافی تنظیموں اور سیاستدانوں نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے۔