انٹر نیٹ پر اشتعال انگیز مواد، بھارتی حکام کی تشویش
6 دسمبر 2011بھارتی کمیونیکشن منسٹر کپل سبل نے منگل کے دن صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے تین ماہ قبل انٹر نیٹ کمپنیوں کو شکایت جمع کروائی تھی کہ وہ انٹر نیٹ پر شائع ہونے والے ناقابل قبول مواد کو فلٹر کرنے کے لیے کوئی حل نکالیں تاہم وہ اس حوالے سے کوئی عملی قدم اٹھانے سے انکار کر رہے ہیں اور اس لیے اب یہ کام بھارتی حکومت خود کرے گی۔
نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کپل سبل نے مزید کہا، ’میرا مقصد ہے کہ توہین آمیز مواد انٹر نیٹ پر شائع نہ ہوسکے‘۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت اس حوالے سے رہنما اصول اور ایک نظام وضع کرے گی۔ کپل سبل نے البتہ کہا کہ انٹر نیٹ کمپنیوں کو یہ معلومات فراہم کرنا ہوں گی کہ ایسا مواد کون اور کہاں سے شائع کر رہا ہے۔
بھارتی وزیر کپل سبل نے کہا کہ بھارتی حکومت آزادی رائے کی حامی ہے اور سنسر شپ کی مخالف ہے تاہم انٹر نیٹ پر شائع ہونے والا اشتعال انگیز مواد کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ کپل سبل نے مزید نے کا کہ انہوں نے انٹر نیٹ کمپنیوں کو ایسا مواد دکھایا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس پر کنٹرول نہیں کر سکتے ہیں۔
کپل سبل کے بقول، ’تین ماہ قبل ہم نے گوگل، یاہو، فیس بک اور دیگر ایسی کمپنیوں کو ایسی تصاویر دکھائی تھیں، جو بھارتیوں کے لیے توہین آمیز ہو سکتی ہیں، بالخصوص مذہبی لوگوں کے لیے۔ ہم نے انہیں کہا تھا کہ وہ اس حوالے سے کوئی حکمت عملی ترتیب دیں اور اس کے لیے ہم نے انہیں وقت بھی دیا لیکن ان کمپنیوں نے ہمیں کوئی جواب نہیں دیا۔‘ کپل سبل نے صحافیوں کو بھی ایسا مواد دکھایا، جن میں سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کی جعلی عریاں تصاویر شامل تھیں۔
سماج رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ بھارتی حکومت کی اس تشویش سے آگاہ ہے اور اس حوالے سے وہ اپنا تعاون جاری رکھے گی۔ سرچ انجن گوگل نے بھی پیر کے دن بھارتی حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقات کی تصدیق کی ہے تاہم اس حوالے سے کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
منگل کو بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انٹر نیٹ کمپنیوں نے بھارتی حکومت کی اس درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ وہ کسی مواد کے اشتعال انگیز ہونے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر سکتی ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: حماد کیانی