1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈالوجی: جرمنی میں ہندوستانی ادب و ثقافت کی تعلیم

12 اکتوبر 2011

آج کل جرمنی میں ہندوستانی علوم کے مطالعے کے شعبے کو کوئی مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی یا انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے شعبوں کے برعکس یہ شعبہ بہت حد تک پس منظر میں جا چکا ہے تاہم ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔

https://p.dw.com/p/12qZ7
گوئٹے انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی
گوئٹے انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلیتصویر: picture-alliance/dpa

ہندوستانی ادب و ثقافت کے مطالعے کے شعبے کی ابتدا

ہندوستانی علوم کے مطالعے کے شعبے کی بنیاد اٹھارویں صدی میں انگریزوں نے رکھی تھی، جو تب ہندوستان کی نو آبادیاتی طاقت تھے۔ انگریز محقق ولیم جونز (1746-1794) نے 1784ء میں کلکتہ میں ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کی بنیاد رکھی تھی۔ اس انجمن کو دُنیا بھر میں انڈالوجی یا ہندوستانی علوم کے مطالعے کے شعبے کی بنیاد کہا جاتا ہے۔

سنسکرت پڑھانے والی پہلی جرمن شخصیت ہائنرش روتھ (1620-1668) کی ہے، جو ایک مسیحی مبلغ تھے۔ ہندوستان کے ایک دورے کے موقع پر اُنہوں نے سنسکرت زبان میں مہارت حاصل کرتے ہوئے اس کی باقاعدہ گرامر تحریر کی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ گرامر کبھی زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئی کیونکہ روتھ کو اس کی اشاعت کی نگرانی کے کام کے لیے کبھی وقت ہی نہیں ملا۔ چنانچہ جرمنی میں سنسکرت ادب و ثقافت کی تعلیم کہیں اُنیس ویں صدی کے اوائل میں شروع ہو پائی۔ 1818ء میں بون یونیورسٹی میں انڈالوجی کا پہلا شعبہ قائم کیا گیا، جو کہ جرمنی بھر میں اپنی نوعیت کا پہلا شعبہ تھا۔ اس طرح انگریزوں کے بعد یورپ میں سب سے پہلے جرمنوں نے سنسکرت پر تحقیق کا آغاز کیا۔

انگریز محقق ولیم جونز (1746-1794)، جنہوں نے 1784ء میں کلکتہ میں ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کی بنیاد رکھی تھی
انگریز محقق ولیم جونز (1746-1794)، جنہوں نے 1784ء میں کلکتہ میں ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کی بنیاد رکھی تھیتصویر: gemeinfrei

بھارت کی مقبولیت لیکن انڈالوجی کے شعبے کے لیے مسائل

انڈالوجی کا شعبہ اب تک بنیادی طور پر زبان پر تحقیق کا شعبہ رہا ہے۔ کہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا بھر میں ایک تحریک شروع ہوئی، جس کا مقصد جدید ہندوستانی زبانوں پر تحقیق کرنا اور سیاسی، جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی معاملات کا جائزہ لینا تھا۔ اگرچہ ستّر کے عشرے میں ہپی تحریک کی وجہ سے اور گزشتہ دَس برسوں کے دوران بالی وُڈ فلموں کی وجہ سے بھارت کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران کلاسیکی انڈالوجی یعنی سنسکرت کی تعلیم و تدریس کے شعبے میں دلچسپی انتہائی کم ہوتی چلی گئی۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ لاطینی کی طرح سنسکرت بھی ایک ’مردہ زبان‘ ہے یعنی جو بولی نہیں جاتی بلکہ محض قدیم عبارتوں میں استعمال ہونے والی زبان ہے؟

ہائیڈل برگ کے ممتاز ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ انڈالوجی کے جرمن ماہر آکسل مشائیلز اس تاثر کی تردید کرتے ہیں۔ ’انڈرنیٹ‘ نامی انٹرنیٹ ویب سائٹ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں مشائیلز نے کہا کہ اصولی طور پر مغربی معاشرے میں پہلے کی طرح اب بھی جنوبی ایشیا کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں معلومات کی ضرورت موجود ہے۔ اُنہوں نے کہا:’’ہر پڑھا لکھا ہندوستانی گوئتھے یا شیکسپیئر کو جانتا ہے لیکن جرمنی میں کون پڑھا لکھا شخص کالی داس کے نام سے واقف ہو گا؟ مغربی دُنیا ہندوستان کے زمانہء حال کو تبھی سمجھ سکتی ہے، جب وہ اِس خطّے کی تاریخ سے واقفیت رکھتی ہو۔‘‘

یوہان وولف گانگ فان گوئتھے
یوہان وولف گانگ فان گوئتھےتصویر: picture alliance/dpa

شعراء، فلسفی، علماء

سنسکرت سے واقفیت رکھنے والی پہلی جرمن شخصیات میں ولہیلم فان ہمبولٹ (1767-1835) جیسے لوگ بھی شامل تھے، جنہیں جرمن ثقافتی زندگی میں ممتاز مقام حاصل تھا۔ ہمبولٹ اور فلسفی گیورگ ولہیلم فریڈرش ہیگل کے درمیان بہت زیادہ خط و کتابت ہوتی تھی اور وہ مثلاً ’بھگوت گیتا‘ پر ایک دوسرے کے ساتھ بحث کیا کرتے تھے۔ تبھی یہ بات واضح تھی کہ سنسکرت عوام کی نہیں بلکہ خواص کی مصروفیت ہے۔

1808ء میں آؤگسٹ ولہیلم شلیگل (1772-1829) نے ’ہندوستانیوں کی زبان اور دانش کے بارے میں‘ کے عنوان سے اپنی مشہور کتاب تصنیف کی۔ بعد ازاں 1818ء میں وہ بون یونیورسٹی میں انڈالوجی کے پہلے پروفیسر مقرر ہوئے۔ اور تو اور فریڈرش رکرٹ نے (1788-1866) بھی، جو دراصل عربی اور فارسی کے ماہر تھے، سنسکرت کی تعلیم حاصل کی اور  ’مہا بھارت‘ کے مشہور کرداروں کے تراجم اور نظموں کے ذریعے نام پیدا کیا۔ اُس دور میں ہندوستانی علوم کے بارے میں جو عمومی دلچسپی پائی جاتی تھی، اُس کا اظہار یوہان وولف گانگ فان گوئتھے، آرتھر شوپن ہاؤر یا فریڈرش نطشے جیسے شاعروں اور فلسفیوں کی تخلیقات سے بھی ہوتا ہے۔

ماکس ملر (1823-1900) کو بھارت میں ہندوستانی علوم کے سب سے زیادہ شہرت رکھنے والے ماہر کی حیثیت حاصل ہے
ماکس ملر (1823-1900) کو بھارت میں ہندوستانی علوم کے سب سے زیادہ شہرت رکھنے والے ماہر کی حیثیت حاصل ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ماکس ملر اور آج کل کے دور میں انڈالوجی کی صورتِ حال

انڈالوجی کے جرمن ماہر ماکس ملر (1823-1900) کو بھارت میں ہندوستانی علوم کے سب سے زیادہ شہرت رکھنے والے ماہر کی حیثیت حاصل ہے۔ بھارت میں گوئتھے انسٹی ٹیوٹ کے تمام اداروں کو اُن کے اعزاز میں ’ماکس ملر بھون‘ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے کبھی بھی بھارتی سرزمین پر قدم نہیں رکھا اور پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ برطانیہ میں گزارا، اُنہوں نے ہندوؤں کی مقدس ترین کتاب ’رگ وید‘ کا جرمن زبان میں پہلا ترجمہ شائع کرتے ہوئے نام پیدا کیا۔ اُن سے پہلے کسی نے بھی ’رگ وید‘ کی مشکل عبارتوں کو ترجمہ کرنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ اُنہوں نے ’مشرق کی مقدس کتابوں‘ کے عنوان سے پچاس جلدوں میں ایشیا کی مقدس کتابوں کو انگریزی زبان میں منتقل کرتے ہوئے ایک دُنیا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا۔

آج کل جرمنی میں انڈالوجی کے 13 انسٹی ٹیوٹ موجود ہیں۔ یہ اانسٹی ٹیوٹ برلن، بون، فرائی برگ، گوئٹنگن، ہالے، ہیمبرگ، ہائیڈل برگ، کِیل، لائپسگ، ماربرگ، میونخ، ٹیوبنگن اور ورس برگ میں ہیں۔ ان میں سے ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں قائم جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ کو ممتاز مقام حاصل ہے۔ ان اداروں میں جدید ہندوستانی زبانیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔

رپورٹ: پریا ایسل بورن / امجد علی

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید