1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا: سماجی بحالی کے ذریعے انسداد دہشت گردی

7 جنوری 2010

گزشتہ ایک عشرے میں سینکڑوں مشتبہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے باوجود انڈونیشیا کو آج بھی ایسی مذہبی عسکریت پسندی کا سامنا ہے جس نے وہاں کے معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/LOFx
انڈونیشی جزیرے بالی کو کئی مرتبہ دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیاتصویر: dpa

انسداد دہشت گردی کی ریاستی کوششوں کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا میں انتہا پسندی کے عفریت کا مقابلہ کرنے کا بیڑہ ایک ایسے شخص نے اٹھایا ہے جو خود بھی ایک اسلامی بورڈنگ سکول کا طالب علم رہ چکا ہے۔

اس انڈونیشی شہری کا نام نور ہدی‌‌ٰ اسماعیل ہے جس نے ممنوعہ تنظیم جماعتہ اسلامیہ کے نگرُوکی نامی علاقے میں1972 سے قائم ایک بورڈنگ اسکول میں تعلیم حاصل کی۔

اس ادارے کے فارغ التحصیل بہت سے نوجوانوں کو اپنے خلاف دہشت گردی سے متعلق الزامات یا کم از کم عسکریت پسندی کے شبہات کا سامنا ہے۔ ان میں سے کچھ اسماعیل کے سابقہ ہم جماعت بھی ہیں۔

Indonesien Wahl
انڈونیشی صدر یدھو یونو اور ان کی اہلیہ گزشتہ جولائی کے صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالتے ہوئےتصویر: AP

سوویت یونین کی افغانستان میں فوجی مداخلت نے جہاں دوسرے مسلم ممالک کو متاثر کیا وہاں انڈونیشیا بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ نور ہدیٰ اسماعیل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد نگرُوکی بورڈنگ اسکول کے کئی سابقہ طالب علم عسکری تربیت کےلئے پاکستان کے شہر پشاور گئے تھے تاکہ افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف جنگ میں شامل ہوسکیں۔ یوں وہ انتہا پسندانہ نظریات کے حامی ہو گئےتھے۔

نور ہدیٰ اسماعیل کا دعویٰ ہے کہ سوویت فوجوں کے خلاف جنگ کے دور میں پشاور میں ایسے عسکریت پسندوں کی تربیت کے لئے سر عام بھرتی ہوتی تھی، جو بعد میں مجاہدین کہلانے لگے۔ تب انڈونیشیا سے بھی کئی مسلمان نوجوان عسکری تربیت کے لئے پاکستان گئے تھے۔

سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں لڑی جانے والی اس جنگ میں مغربی دنیا، خاص کر امریکہ نے ان عسکریت پسندوں کی حمایت کی جبکہ سعودی عرب مجاہدین کے مختلف دھڑے کہلانے والے ان جنگجو گروپوں کی مالی مدد کرتا تھا۔

Noordin Mohammad Top malayischer Terrorist getötet
وسطی جاوا میں ایک پولیس مقابلے میں مارا جانے والا انتہائی مطلوب دہشت گرد نور دین توپتصویر: AP

یہ جاننے کے لئے کہ عام امن پسند شہری دہشت گردی کا راستہ کیوں اختیار کرتے ہیں، اسماعیل نے انڈونیشیا میں امن کے فروغ کے لئے IPB کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔

یہ تنظیم عسکری تربیتی مراکز میں موجود انتہا پسندوں سے انٹرویو کرنے کے علاوہ مشتبہ دہشت گردوں سے جیلوں کے اندر اور باہر بھی رابطہ کرتی ہے۔ اس طرح ان کے نظریات جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ زیر حراست دہشت گردوں یا مشتبہ عسکریت پسندوں اور پولیس کے مابین پیدا ہونے والے مختلف مسائل سے نمٹنے کے لئے IPB نامی یہ ادارہ انڈونیشیا کی آٹھ مختلف جیلوں میں باقاعدگی سے کئی طرح کے پروگرام منعقد کرتا ہے، جن میں ایسے افراد کی سماجی بحالی کی کوششوں پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔

نور ہدیٰ اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ خود اس لئے کوئی دہشت گرد نہیں بنا کیونکہ وہ سجھتا ہے کہ کسی بھی مقصد کے حصول کے لئے ایک سے زائد پر امن راستے ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔

یہ امکان بھی ہے کہ انڈونیشیا کا یہ شہری اپنی سوچ اور عملی کوششوں کی وجہ سے خود بھی دہشت گردوں کا نشانہ بن سکتا ہے۔ لیکن نور ہدیٰ اسماعیل اس وجہ سے خوفزدہ نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ انتہاپسندوں کو امن کا راستہ دکھا کر انڈونیشی معاشرے کی اس طرح خدمت کرنا چاہتا ہے جو دوسرے لوگوں کی کاوشوں سے مختلف ہو۔

رپورٹ: روبینہ سیفورا / عبدالستار

ادارت: مقبول ملک