1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا میں صدارتی انتخابات

8 جولائی 2009

انڈونيشيا ميں آٹھ جولائی کو صدارتی انتخابات ہو رہے ہيں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ان ميں صدر يدھو يونو کی کاميابی تقريبا يقينی ہے۔

https://p.dw.com/p/IiGx
انڈونیشیا کے صدارتی الیکشن کے اُمیداوارتصویر: AP

ان انتخابات ميں اقتصادی موضوعات اور کرپشن کی روک تھام کی بنيادی اہميت ہے اور صدر يدھو يونو نے انتخاباتی مہم ميں اس سلسلے ميں اپنی حکومت کی کاميابيوں کا حوالہ ديا ہے۔

انڈونيشيا میں آٹھ جولائی کو ہونے والے صدارتی انتخابات ميں صرف تين امیدوار ہيں: سوسيلو بامبانگ يدھويونو، جو موجودہ صدر بھی ہيں، سابق صدر ميگاوتی سوکارنوپتری اور نائب صدر کالا۔ 59 سالہ يدھو يونو نے انتخاباتی مہم کے دوران اپنے پانچ سالہ دور حکومت کی اقتصادی کاميابيوں کا بار بار حوالہ ديا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس پاليسی کو جاری رکھيں گے: ’’ہماری حکومت کی ترجيحات يہ ہيں کہ سب سے پہلے معیشت کو مضبوط بنايا جائےاور اس ميں کم ازکم سات فيصد کا اضافہ کيا جائے۔ دوسرے يہ کہ زراعت اور ديہی علاقوں کو مزيد ترقی دی جائے اور سماجی بہبود کے پروگراموں کے ذريعے غربت کا مقابلہ جاری رکھا جائے۔‘‘

عالمی مالياتی اور اقتصادی بحران کے باوجود اس سال کے دوران انڈونيشيا کی معيشت ميں تين تا چار فيصد کا اضافہ ہوگا۔ اگرچہ پچھلے سال کے چھ فيصد کے اقتصادی اضافے کے مقابلے ميں يہ بہت کم ہوگا ليکن صدر يدھويونو کو عوام کا خوف دور کرنے ميں کاميابی ہوئی ہے۔

Indonesien Wahlen Präsident Kandidaten Wahlkampf
انڈونیشیا میں صدارتی انتخابات کے حوالے سے کافی جوش خروش پایا جاتا ہےتصویر: AP

صدر يدھو يونو کی عوام ميں زبردست مقبوليت کی وجہ کرپشن کے خلاف ان کی مسلسل جنگ ہے۔ پچھلے برسوں ميں بہت سے اعلیٰ افسران کو بدعنوانی کے شبے ميں گرفتار کر کے ان پر مقدمات چلائے گئے ہيں۔ جب ان کے بيٹے کے سُسر کو کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کيا گيا تو انہوں نے اس ميں کسی قسم کی مداخلت نہيں کی اور عدالتی نظام کی خود مختاری پر زور ديا۔

صدر بننے کی دوسری اميدوار 2001 سے 2004 تک صدر رہنے والی، ملک کے بانی صدر سوکارنو کی 62 سالہ بيٹی ميگاوتی ہيں جنہوں نے انتخاباتی مہم کے دوران قوم پرستی کے نعروں کے ذريعے اپنے والد کے نام سے اپنے تعلق کو اجاگر کرنے پر زور ديا۔ بہت سے انڈونيشی آج بھی نوآبادياتی طاقت کے خلاف جنگ ميں سوکارنو کو ايک عظيم ہيرو سمجھتے ہيں : ’’انڈونيشیا کو مستقبل ميں ايک عظيم قوم بننا ہے۔ ہم آج اس لئے آزاد ہيں کيونکہ ہم نے آزادی کی جنگ لڑی تھی۔‘‘

تيسرے صدارتی اميدوار 67 سالہ يوسف کالا ہيں۔ وہ ايک کامياب تاجر ہيں اور اپنی جلد فيصلے کرنے کی صلاحيت کی وجہ سے مشہور ہيں۔ وہ ملکی وزارتوں اور ریاستی محکموں پر اکثر یہ تنقيد کرتے رہتے ہيں کہ وہ بہت سست رقتار ہيں۔

تينوں اميدواروں کی انتخاباتی مہم ميں اقتصادی موضوعات کو خاص اہميت دی گئی ہے ليکن اقتصادی حلقے بالخصوص يدھو يونو پر اعتماد کرتے ہيں کہ وہ ملک کے معاشی مسائل کو حل کرنے کی صلاحيت رکھتے ہيں۔


رپورٹ: Hendra Pasuhuk

ادارت : مقبول ملک