1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا کا مشرقی تیمور میں قتلِ عام پرتاسف

16 جولائی 2008

منگل کے روز انڈونیشیا نے انیس سوننانوے میں مشرقی تیمور میںقتل عام کے حوالے سے افسوس کا اظہار کیاہے تاہم اس حوالے سےمعافی مانگنے یا کسی بین الاقوامی ٹربیونل کے قیام کی مخالفت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/Ed55
انیس سوننانوے میں ہونےوالے انتخابات میں جہاں انسانی جانیں ضائع ہوئیں وہاں مشرقی تیمور کو آزادی بھی نصیب ہوئیتصویر: AP

انڈونیشیا کے صدر سوسیلو بامبانگ یودھو یانو نے کمیشن آف ٹرتھ اینڈ فرینڈشپ کی رپورٹ کو تسلیم کرتے ہوئے انڈونیشیا کی افواج کے ہاتھوں انیس سوننانے میں مشرقی تیمور میں ہلاکتوں پر رنج کا اظہار کیا ہے تاہم اس حوالے سے معافی مانگنے سے اجتناب کیا ہے۔


سن دوہزار پانچ میں انڈونیشیا اور مشرقی تیمور کی ایما پرقائم کیے گئے مزکورہ کمیشن نے انیس سو ننانوے میں مشرقی تیمور میں حقِ خودارادیت کے حوالے سے منعقد کیے گئے انتخابات کے موقع پر انڈونیشیا کی افواج کے ہاتھوں مشرقی تیمور کے باشندوں کے قتل عام سے متعلق مزکورہ رپورٹ انڈونیشیا کے شہر بالی میں انڈونیشیا اور مشرقی تیمور کے سربراہانِ مملکت کے حوالے کی۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق مشرقی تیمور میں انتخابات کے موقع پر کم از کم ایک ہزار افراد کوجان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔


انیس سو پچھتر میں پرتگال کے تین صدیوں پر محیط قبضے کے خاتمے کے بعد انڈونیشیا کی افواج مشرقی تیمور میں داخل ہوئی تھیں اور انڈونیشیا نے مشرقی تیمور کو اپنے ستایئسویں صوبے کا درجہ دیا تھا۔اقوامِ متحدہ نے مشرقی تیمور پر انڈونیشیا کے قبضے کوکبھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ انیس سوننانوے میں مشرقی تیمور کے باشندوں نے انڈونیشیا سے آزادی کے حق میں ووٹ ڈالے۔اسی دوران زبردست کشیدگی پھوٹ پڑی جس کے نتیجے میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے۔مشرقی تیمور نے سن دو ہزار دو میں مکمل آزادی حاصل کی۔اسی برس مشرقی تیمور نے ایک کمیشن قائم کیا جس کی ایک رپورٹ میں انیس سوپچھتر سے انیس سوننانوے تک انڈونیشیا مشرقی تیمور پر قبضے کے دوران دو لاکھ کے قریب ہلاکتوں کا زمہ دار ٹھیرایا گیا۔


انسانی حقوق سے متعلق تنظیموں کا موقف ہے کہ انڈونیشیا اور مشرقی تیمور کی حکومتوں کو ہلاکتوں کے زمہ دار افراد پر مقدمہ چلا کر ان کو سزا دینی چاہیے۔تاہم منگل کے روز انڈونیشیا کے صدر نے اس معاملے پر فقط اظہارِ افسوس پر ہی اکتفا کیا ہے۔