1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

090311 Schlamm Vulkan Indonesien

16 مارچ 2011

انڈونیشیا کا کیچڑ اگلتا آتش فشاں، جسے ’لُوسی‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، پہلی بار 2006ء میں پھٹا۔ تب اِس کے اندر سے اتنی مقدار میں کیچڑ باہر نکلا، جس سے روزانہ اولمپک سائز کے چالیس سومنگ پولز کو بھرا جا سکتا تھا۔

https://p.dw.com/p/10aK5
انڈونیشیا کا آتش فشاں ’لُوسی‘

دُنیا کے مختلف حصوں میں کیچڑ اگلنے والے آتش فشاں پہاڑوں کے برعکس مشرقی جاوا کے لُوسی نامی اِس پہاڑ سے سلیٹی رنگ کے کیچڑ کا بہاؤ رُکا ہرگز نہیں ہے البتہ پہاڑ سے بہنے والے کیچڑ کی مقدار میں کمی آ چکی ہے۔ ایک نئے مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ یہ آتش فشاں کب تک کیچڑ اگلتا رہے گا۔

سائنسدان 2006ء میں اِس آتش فشاں سے پہلی مرتبہ کیچڑ بہنے کے بعد سے ہی اِس پہاڑ کا بغور مشاہدہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کئی ایک کو تو اِس بات میں بھی شُبہ ہے کہ یہ واقعی کیچڑ اگلنے والا ایک قدرتی آتش فشاں ہے۔ برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ ڈیویز کو یقین ہے کہ اِس پہاڑ سے کیچڑ کا بہاؤ 150 میٹر کی دوری پر کی جانے والی کھدائی کا نتیجہ تھا۔

Indonesien Java Schlammvulkan Lusi
مشرقی جاوا میں آتش فشاں کی زَد میں آنے والے ایک گاؤں کی باقیاتتصویر: AP

اِس کے برعکس انڈونیشی حکومت کا موقف یہ ہے کہ چند روز پہلے اِس آتش فشاں سے 280 کلومیٹر دور آنے والے زلزلے کے نتیجے میں کیچڑ کا یہ بہاؤ شروع ہوا۔ تاہم پروفیسر ڈیویز کے مطابق کھدائی کے نتیجے میں دباؤ میں جنم لینے والی تبدیلی زلزلے کے باعث دباؤ میں آنے والی تبدیلی سے 123 گنا زیادہ تھی اور یہ کہ اِسی وجہ سے یہ بہاؤ رُکنے کا بھی نام نہیں لے رہا۔

پروفیسر ڈیویز کہتے ہیں:’’ہم نے بنیادی طور پر چٹان کی اُن تہوں میں زیر زمین دباؤ کا مشاہدہ کیا ہے، جہاں سے کیچڑ اس آتش فشاں میں آ رہا ہے۔ ہم نے ایک برس اور تین برس بعد باہر نکلنے والے کیچڑ کی اصل مقدار کو دیکھ کر اندازہ لگایا ہے کہ ابھی اگلے چھبیس برسوں تک اِس پہاڑ سے کیچڑ کا بہاؤ جاری رہے گا۔‘‘

پروفیسر ڈیویز کے خیال میں یہ وہ وقت ہے، جو دباؤ کو پھر سے معمول پر لانے کے لیے درکار ہو گا۔ بہنے والا کیچڑ ایک پندرہ میٹر گہری جھیل کی شکل اختیار کر گیا ہے، جس نے مکانوں، دکانوں اور عبادت کی جگہوں کو نگل لیا ہے۔ پچاس میٹر چوڑے بڑے دہانے کے ساتھ ساتھ اب تقریباً 170 چھوٹے چھوٹے دہانے بھی بن چکے ہیں، جہاں سے نکلنے والی زہریلی گیسیں اردگرد کے رہائشی علاقوں، فیکٹریوں اور مکانوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔

Indonesien Java Schlammvulkan Lusi
مزدور آتش فشاں سے بہنے والے کیچڑ کے آگے بند باندھنے کے لیے بھاری مشینری استعمال کر رہے ہیںتصویر: AP

اِس آتش فشاں کے باعث تقریباً تیرہ ہزار کنبوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ہے۔ ملبورن میں قائم تنظیم ہیومینیٹیز سے وابستہ جیفری رچرڈز بتاتے ہیں کہ اب تک زرِ تلافی کے طور پر کم از کم 770 ملین ڈالر ادا کیے جا چکے ہیں۔ رواں سال کے اواخر میں ماہرین کے ایک اجلاس میں مسائل کے حل تلاش کیے جائیں گے۔

جیفری رچرڈز بتاتے ہیں:’’ایک سائنس انٹرنیشنل گروپ تشکیل دیتے ہوئے ہم اِس پہاڑ کی سطح کا جائزہ لیں گے کہ وہاں ہو کیا رہا ہے۔ تبھی ہم کوئی طویل المدتی سماجی ترقیاتی پروگرام مرتب کر سکتے ہیں۔ حکومت تیاریاں کر سکتی ہے، لوگ خود کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔‘‘

ابھی بھی اِس علاقے کے متعدد باسیوں کو زرِ تلافی کے طور پر کوئی رقم نہیں مل سکی ہے۔ یہ بھی شکایات ہیں کہ پانی آلودہ ہے اور زمینی سطح کے غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے ڈیم ٹوٹ گئے ہیں۔

رپورٹ: انگاتیرا گولمر / امجد علی

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں