1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا: ہر پانچوں طالب علم ’خلافت‘ کا حامی

عاطف توقیر
2 نومبر 2017

ایک تازہ جائزے کے مطابق انڈونیشیا میں قریب بیس فیصد طلبہ ’اسلامی خلافت‘ کے قیام کے حامی ہیں۔ ان طلبہ کے مطابق ملک میں موجودہ سیکولر حکومت کی جگہ ’اسلامی خلافت‘ قائم کی جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/2muwB
Indonesien Islamisten Demo in Jakarta
تصویر: Reuters/Beawiharta

سب سے بڑی مسلم اکثریت کے حامل ملک انڈونیشیا کو مذہبی رواداری کے اعتبار سے بہتر تشخص کا حامل مسلم ملک قرار دیا جاتا ہے، تاہم حالیہ کچھ عرصے میں وہاں انتہاپسند نظریات کے حامل مسلم رہنماؤں کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

داعش کے ’دارالخلافہ‘ پر امریکی حمایت یافتہ لشکریوں کی چڑھائی

داعش ایک سال میں اپنے زیر قبضہ ایک چوتھائی علاقے سے محروم

داعش کے خود کش حملوں میں بچوں کا مسلسل بڑھتا ہوا استعمال

انڈونیشیا میں مسلمانوں کی اکثریت اعتدال پسند نظریات کی حامل ہے اور ملک میں ہندوؤں، مسیحیوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے کی بھی بڑی تعداد آباد ہے۔ مذہبی تنوع کو انڈونیشیا کا دستور تحفظ فراہم کرتا ہے۔

جکارتہ سے تعلق رکھنے والی ایک تنظیم کی جانب سے کرائے گئے اس تازہ سروے میں 42 سو مسلم طلبہ کی رائے لی گئی، جن کا تعلق جاوا جزیرے کے مختلف اسکولوں اور جامعات سے تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ انڈونیشیا کی آبادی کا نصف سے زائد اسی جزیرے پر آباد ہے۔

نوجوانوں کے ليے ايک موقع، فاٹا يونيورسٹی

اس سروے کے مطابق ہر چار میں سے ایک طالب علم کسی نہ کسی سطح پر یہ سمجھتا ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے ’جہاد‘ کے لیے تیار ہے۔ سروے کرانے والی ایلویرا نامی تنظیم کے مطابق، ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عدم برداشت کا سبق ان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخل ہو چکا ہے۔‘‘

اس تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’حکومت اور اعتدال پسند مسلم تنظیمیں ہر حال میں اس صورت حال کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں اور ایسی زبان کا استعمال کریں، جو سمجھنے میں آسان ہو۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس کے اختتام پر سخت گیر موقف کے حامل گروپوں نے جکارتہ میں سابقہ مسیحی گورنر کے خلاف بڑے مظاہرے کیے تھے اور ان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے اسلام کی توہین کی ہے۔ ان الزامات کے بعد گورنر باسوکی تجاہجا پرنما کرسی سے محروم ہو گئے تھے، تاہم رواں برس اپریل میں وہ دوبارہ گورنر منتخب ہو گئے تھے۔ بعد ازاں انہیں توہین مذہب کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا۔ اس عدالتی فیصلے کو عالمی سطح پر ناانصافی قرار دیتے ہوئے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

انڈونیشیا کی حکومت خاص طور پر تعلیمی اداروں میں مذہبی گروپوں کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے کئی اقدامات بھی کر رہی ہے۔ گزشتہ ماہ ملکی پارلیمان نے ملک کی سیکولر حیثیت کے خلاف سرگرم تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کے صدارتی حکم نامے کی توثیق کی تھی جس کے بعد ملک میں خلافت کے قیام کے لیے سرگرم تنظیم ’حزب التحریر‘ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔