1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انگریزی کے استاد روبوٹ

29 دسمبر 2010

جنوبی کوریا کے ایک جنوبی شہر میں 30 روبوٹس نے بچوں کو انگریزی سکھانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ جنوبی کوریا کے تعلیمی حکام کےمطابق یہ ایک پائلٹ پراجیکٹ کا حصہ ہے، جس کا مقصد ملک میں روبوٹ انڈسٹری کو فروغ دینا ہے۔

https://p.dw.com/p/zrBP
تصویر: AP

سفید انڈے کی شکل کا یہ روبوٹ کوریا انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (KIST) کی طرف سے تیار کیا گیا ہے اور اسے اینگ کی (Engkey) کا نام دیا گیا ہے۔ ان روبوٹس نے ملک کےجنوب مشرقی شہر ڈائگو کے 21 پرائمری اسکولوں میں کلاسیں لینے کا آغاز پیر 27 دسمبر سے کیا۔

اینگ کی کا قد قریب ایک میٹر ہے اور اس کے چہرے کی جگہ ایک ٹی وی ڈسپلے پینل نصب ہے۔ یہ روبوٹ کلاس میں گھوم پھر کر بچوں سے بات کرتا ہے، کتاب میں سے مختلف چیزیں پڑھ کر سناتا ہے جبکہ انگریزی کی نظموں کو میوزک کے ساتھ گا کر یاد کراتا ہے اور اس دوران اپنے بازو اور سر ہلا کر موسیقی کی دھن پر ڈانس بھی کرتا ہے۔

Robot tanzt und spielt
سونی کمپنی کے تیار کردہ میوزک بجانے اور ڈانس کرنے والے روبوٹتصویر: AP

اس روبوٹ کے ڈسپلے پر قفقاز کے علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کا چہرہ دکھائی دیتا ہے، جبکہ اسے فلپائن میں بیٹھے انگریزی کے ماہر استاد کنٹرول کرتے ہیں۔ اس روبوٹ میں لگے نظام کی بدولت ایک دوسرے ملک میں بیٹھا استاد کلاس میں بیٹھے ہر بچے کو دیکھ اور سن سکتا ہے۔

KIST کے ایک سینئر سائنسدان ساگونگ سی یونگ ڈائے کے بقول ان بچوں کے سوالات اور باتوں کی وجہ سے فلپائن کے استاد کے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات ایک کیمرے کے ذریعے اس روبوٹ کو منتقل ہوتے ہیں اور پھر یہی تاثرات روبوٹ کے ڈسپلے پر نظر آنے والے چہرے پر نمودار ہو جاتے ہیں۔ یونگ ڈائے نے فلپائن کے اساتذہ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی وجہ یہ بتائی کہ وہاں موجود بہترین تربیت یافتہ اساتذہ کوریا سمیت دیگر کسی بھی ملک میں موجود اساتذہ سے کم پیسے لیتے ہیں۔

اینگ کی بچوں کو کتاب پڑھ کر سنانے اور گانے کے علاوہ بچوں کےساتھ انگریزی حروف کے استعمال پر مبنی مختلف کھیل بھی کھیلتا ہے۔ ڈائگو شہر کے محکمہ تعلیم کی ایک سینئر اہلکار کِم می یانگ کے مطابق، ’’چونکہ دیکھنے میں یہ روبوٹ بہت پیارا اور دلچسپ دکھائی دیتا ہے، اس لئے بچے اس روبوٹ سے پیار کرتے ہیں، بلکہ بعض بالغ افراد بھی اس میں دلسچپی لیتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ دیگر انسانوں کی نسبت اس روبوٹ سے بات کرتے ہوئے زیادہ آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔‘‘

Alphabetisierung - Kinder in der Schule
"روبوٹ کو بطور استاد استعمال کرنے کے تجربے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ روبوٹس انسان اساتذہ کی جگہ لے لیں گے۔"تصویر: picture-alliance/dpa

کِم می یانگ کے مطابق یہ روبوٹ ابھی تجرباتی طور پر استعمال کئے جا رہے ہیں تاہم اگر سائنسدان ان روبوٹس کو مزید جدید بناتے ہوئے مطلوبہ تبدیلیاں کر دیتے ہیں تو ان روبوٹس کو کُل وقتی بنیادوں پر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ تبدیلیاں استعمال میں آسانی اور قیمتوں میں کمی کے حوالے سے ہیں۔

ڈائگو کے محمکہ تعلیم کی اعلیٰ اہلکار کم می یانگ کے بقول، ’’کلاس روم میں روبوٹس کی موجودگی سے بچے پڑھائی میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، خاص طور پر وہ بچے بھی جو انسان اساتذہ کی موجودگی میں بولتے ہوئے شرماتے ہیں۔‘‘ تاہم کِم کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تجربے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ روبوٹس انسان اساتذہ کی جگہ لے لیں گے۔ ان کے بقول اس کا مقصد محض ملک کی ایک اہم صنعت کو فروغ دینے میں مدد کرنا ہے۔

چار ماہ پر مشتمل اس پائلٹ پراجیکٹ کے لئے 1.37 ملین امریکی ڈالر کے مساوی رقم حکومت کی طرف سے فراہم کی گئی۔ حالیہ پراجیکٹ کے علاوہ بھی سائنسدان سال 2009ء کے دوران دیگر مضامین پڑھانے کے لئے بھی روبوٹس کو استعمال کر چکے ہیں، جن میں ریاضی اور سائنس جیسے مضامین شامل تھے۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں