1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما انتظامیہ کے بعد اقوام متحدہ میں امریکی سفارتکاری میں تبدیلی

عاطف بلوچ5 مارچ 2009

مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے سفارت کاروں نے باراک اوباما انتظامیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب امریکی سفارت کارسابق صدر بش کی طرح جارحانہ طریقہ کار استعمال نہیں کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/H51R
باراک اوباما کی طرف سےاقوام متحدہ کے لئے تعینات کی جانے والے نئی سفارت کار سوزن رائس اپنے دھیمے انداز سے دلوں کو جیتنے میں کامیاب رہی ہیںتصویر: AP

واشنگٹن میں تعینات کئی مغربی سفارت کاروں نے کہا ہے کہ صدر باراک اوباما کی نئی انتظامیہ ایک بار دوبارہ کوشش کررہی ہے کہ وہ اپنے پرانے اور روائتی ساتھیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنا ئے۔ جبکہ یہی سفارت کار سابق صدر بش کے دور میں امریکی سفارت کاری کے طریقہ کار پر شکایت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اُس وقت امریکہ کے ساتھ مذاکرات کافی مشکل کام تھا۔

خبر رساں ادارے روئیٹرزکے مطابق کئی مغربی اور یورپی سفارت کاروں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ کی طرف سے اقوام متحدہ کی نئی خاتون سفیر سوزن رائس ایک خوشگوار تبدیلی لائی ہیں۔

Steinmeier bei clinton
جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر دورہ واشنگٹن کے موقع پراپنی امریکی ہم منصب کے ہمراہتصویر: AP

ایک یورپی سفارت کار کا کہنا ہے اب امریکہ کی طرف سے صرف ڈکٹیشن یا لیکچر نہیں سنائے جاتے بلکہ آپ سوزن رائس سے بات کرتے ہوئے یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ آپ کی بات سنجیدگی سے سن رہی ہیں اور یہ صورتحال پہلے کبھی نہیں تھی۔ بلکہ ایک یورپی سفارت کار نے اس خاتون سفارت کار سوزن رائس کو Human Rice کا نام بھی دیا۔ جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی زمہ داریاں سنبھالتے ہی انسانی حقوق کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں میں دوبارہ شریک ہونے کی خواہش کا اظہارکیا۔

تاہم رائس اپنی ذمہ درایوں کو اتنی آسانی سے بھی نہیں نبھا سکیں گی۔ کیونکہ اگرچہ امریکہ میں انتطامیہ بدلنے سے اقوام متحدہ میں مجموعی طور پر امریکہ کی ستائش جارہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ کے ناقدین کے طور پر ایران اور لیبیا نے بھی اس ادارے میں کئی اہم عہدے سنبھال رکھیں ہیں۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ کے لئے اب لیبیا کی طرف سے نمائندہ چنا جائے گا۔ اور اقوام متحدہ کے اس ادارے میں عمموی طور پر امریکہ اور اسرائیل پر بھاری تنقید ہی کی جاتی رہی ہے۔

گزشتہ آٹھ سالوں سے سابق صدر بش کی قیادت میں امریکہ نے ہمیشہ ہی اقوام متحدہ کے اس ادارےکی انسانی حقوق ، ماحولیاتی تبدیلی اور تخفیف اسلحہ پر اختیار کئے جانے والے موقف کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی باتیں ہی منوائیں۔

Gordon Brown bei Barack Obama
برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن اور امریکی صدر باراک اوباماتصویر: AP

لیکن اب صدر اوباما کے دور میں انہی مذکورہ مسائل پر کچھ مختلف حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے۔ شائد اسی لئےایک یورپی سفارت کار کا کہنا ہے کہ باہر کے مقابلے میں اندر سے تبدیلی لانا ایک آسان کام ہوتا ہے۔

صدر اوباما ، سوزن رائس اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ وہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر تہران حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے کے لئے تیار ہے۔ واضح رہے کہ سابق صدر بش کی انتظامیہ نے ایران کے ساتھ اسی تنازعہ پر براہ راست مذاکرات کو خارج از امکان قرار دے رکھا تھا۔

صدر اوباما کی طرف سے اس نئی خوشگوار تبدیلی کے بعد بھی تاہم کچھ سفارت کاروں نے اس تبدیلی کو ایک دکھاوا قرار دیا۔ ایک ترقی پذیر ملک سے تعلق رکھنے والے سنئیر سفیر نے تمام تر صورتحال کے بارے میں محاوراتی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی بات ہے کہ پرانے گلاس میں نئی شراب۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی ایجنڈے میں ابھی تک کوئی تبدیلی سامنے نہیں آئی اور ابھی تک امریکہ کی پالیسی وہی ہے جو سابق صدر بش کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران ، غزہ اور سوڈان میں سب کچھ ویسا ہی جیسا کہ پہلے تھا۔