1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما، جرمن اخبارات میں

کشور مصطفٰی21 جنوری 2009

دیگر یورپی عوام کی طرح جرمنی میں بھی محموعی طور پر باراک اوباما کی تقریب حلف برداری کوبہت زیادہ پسند کیا گیا۔ آج جرمن پریس اس تقریب اور باراک اوباما کی تقریر پر تبصروں سے بھرا دکھائی دیا۔

https://p.dw.com/p/Gdos

جرمنی میں نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما کی تقریب حلف برداری ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھائی گئی جسے گیارہ ملین سے زائد انسانوں نے دیکھا۔ آج یورپ بھر کی طرح تقریبا تمام ہی جرمن اخبارات کی شہہ سرخیاں امریکی صدر باراک اوباما پر مرکوز دکھائی دیں۔

اخبار فرانکفرٹررونڈ شاؤ تحریر کرتا ہے:

اوباما نے تقریب حلف برداری کے بعد اپنی تقریر میں کہا: امریکہ کے مستقبل کا دارومدار امریکی قیادت نہیں بلکہ امریکی عوام پر ہے۔ یہ لہجہ اب بھی انتخابی مہم کے دوران تقریر کا سا لگتا ہے۔ حکومت چکس اینڈ بیلنسز کی بنیاد پر چلتی ہے نہ کہ عوامی خواھشات کو پورا کرنے کے عزم کے اظہارسے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ اوباما نے اپنی تقریر میں امریکہ کی بد حالی اوراس سے امریکہ کو لاحق خطرات کی طرف پرزور توجہ دلائی ہے اورانہوں نے کہا ہے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ کواس بد حالی سے وہ نکال سکیں گے۔ تاہم یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ خود کوعوامی خواھشات کے ترجمان کی حیثیت سے پیش کرنا چھوڑ دیں۔

اخبار فرانک فورٹرالگیمائن لکھتا ہے:

امریکہ نے پہلی بارایک سیاہ فام صدر کو منتخب کرکہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ ملک اپنی استحصال سے بھرپورتاریخ کے افسوسناک واقعات کو تسلیم کرنے اور اس تاریخ کوبدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

نوئے سیورشرسائیٹونگ تحریر کرتا ہے:

باراک اوباما کواس امرکا ادراک ہے کہ امریکی قوم کے اندراس وقت جو بھائی چارگی اورجوش و خروش نظرآ رہا ہے یہ عموماٍ ایک ماہ میں ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں باراک اوباما کو جتنی بھاری اکثریت حاصل ہے اتنی گزشتہ پچیس برسوں میں کسی دوسرے صدر کو حاصل نہیں ہوئی۔ اس اعتبار سے اس بات کے امکانات اوباما کے لئے روشن ہیں کہ اصلاحات کو جلد از جلد عملی شکل دی جا سکے۔

ادھر برطانوی اخبار The Guardian باراک اوباما کے صدر بننے پریوں تبصرہ کرتا ہے:

اوباما امریکہ کے صدراس وقت بنے ہیں جب کہ امریکہ چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ایک طرف امریکہ کئی عالمی مسائل کے حل کرنے کی طاقت رکھتا ہے دوسری جانب کئی اعتبار سے خود اس کی طاقت میں کمی آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باراک اوباما جارج بش سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اورانہیں معلوم ہے کہ اب پرانے طریقہ کار سے کام نہیں چلے گا اور انہیں ہرکام نئے طریقے سے کرنا ہوگا۔