1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اوریجنل ون‘

5 مارچ 2010

جرمن معیشت کو ہر سال تیس ارب کا نقصان مشہورکمپنیوں کی جعلی مصنوعات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ برانڈڈ اشیاء کی نقل بہت آسانی سے خریدی جا سکتی ہیں۔ یہ مصنوعات کمپنیوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/MKW9
تصویر: DW/Behzad Keshmiripour

’موبائل فون کے ذریعے موت‘  پچھلے دنوں چین میں ایک الیکٹرک ویلڈر اپنی جیب میں رکھے ہوئے موبائل کے پھٹنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔ تحقیات میں معلوم ہوا کہ مرنے والے شخص کی جیب میں جو موبائل فون تھا اس کی بیٹری جعلی تھی۔ چین میں اس نوعیت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ بے شک وہ بیٹری اصلی نہیں تھی لیکن پھر بھی یہ خبر نوکیا کمپنی کے لئے اچھی نہیں تھی۔ اس طرح کے واقعات سے کمپنی کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔آخر اس مسئلے سے جان کیسے چھڑائی جائے؟ اس مرض کا علاج جرمنی میں جاری کمپیوٹر اشیاء کے سالانہ تجارتی میلے سی بٹ میں ایک کمپنی نے پیش کیا ہے۔حال ہی قائم ہوئی کمپنی ’اوریجنل ون‘ نےسی بٹ نمائش میں تاجروں اور صارفین کے اس مسئلے کا  ایک حل پیش کیا ہے، کہ کس طرح  نقلی اشیاء سے بچا جا سکتا ہے۔

اوریجنل ون کی مینیجر Claudia Alsdorf نے بتایا کہ ان کی کپمنی نے ایسا حل تلاش کیا ہے، جس کے ذریعے ممکن ہے کہ مصنوعات کو سپلائی روٹ کے دوران ہر وقت اور ہر جگہ پر چیک کیا جا سکے۔ یہ سب کچھ بہت ہی آسان طریقہ سےجا سکتا ہے کہ کیا اصلی ہے اور کیا نقلی اور اسی وجہ سے ان کی کمپنی کا نام ہے ’اوریجنل ون‘

CeBIT 2010 Betanken eines Elektroautos
جرمنی کے مشہور کمپیوٹر میلے سےبٹ میں SAP کمپنی کا سٹالتصویر: SAP

یہ کپمنی جرمنی میں سوفٹ ویئر بنانے والے ادارے SAP، موبائل فون بنانے والی کمپنی نوکیا، سیکیورٹی ماہرین اور بینک نوٹ چھاپنے والے ادارے کے ساتھ  مل کر کام کر رہی ہے۔ ان سب اداروں نے اپنی اپنی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا سسٹم تیار کیا ہے، جو نقلی مصنوعات کا پتا چلا سکتا ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے کمپنی میں تیاری کے وقت ہی  اصلی اشیاء کو ایک بار کوڈ یا ان میں چپ نصب کی جاتی ہے، جس میں اس کی تمام معلومات درج ہوتی ہیں۔ یہ معلومات کسٹم کا عملہ، سپلائرز، دکاندار اور ہول سیلرز اپنے موبائل فون کے ذریعے پڑھ سکتے ہیں۔  موبائل فون کو یہ ڈیٹا ’اوریجنل ون ‘ فراہم کرتا ہے۔ اس طرح اگر کسی بھی لمحے پر اصلی اشیاء میں نقلی شامل کی گئیں تو موبائل فون وہ چپ یا بار کوڈ نہیں پڑھ سکے گا اور اسی وقت راز فاش ہو جائے گا۔

اس سلسلے میں Claudia Alsdorf  نے بتایا کہ آجکل دستیاب تمام موبائلز اس طرح کے بار کوڈ یا چپ کو ریڈ کر سکتے ہیں۔ ان کی کمپنی اسی جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا رہی ہے اور یہSAP کے تعاون سے ہی ممکن ہو سکا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اضافی معلومات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مثلا کسی بھی کسٹم اہلکار کو پہلے ہی سے یہ پتا ہوگا کہ، جو کنٹینر چین سے آنے والے ہیں ، ان میں کونسی مصنوعات ہیں۔ جرمنی پہنچنے پر اگر بار کوڈ نہیں ملتے پھر وہ کہہ سکتا  ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔

Landscapeteaser Cebit
سے بپ میلے کا ایک الیکٹرانک پوسٹر

بہر حال اس طریقے سے امید کی جا رہی ہے کہ نقلی مصنوعات صارفین تک نہیں پہنچ سکیں گی اور راستے میں ہی ان کی نشاندہی ہو جائے گی۔ کلاؤڈیا السڈورف نے اس سسٹم کا اس کا مظاہرہ یوں کیا کہ انہوں نے نوکیا ٹیلیفون کی دو نئی بیٹریاں نکالیں، ایک اصلی جبکہ دوسری نقلی۔ پھر اپنے موبائل سے فون اسے چیک کیا، چند لمحوں بعد ہی موبائل نے نقلی بیٹری کی نشاندہی کر دی۔ اس پورے عمل میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ صارفین کو اپنے موبائل فونز میں ایک سسٹم ڈاؤن لوڈ کرنا ہوگا اور پھر کسی مشکل میں پڑے بغیر سب کچھ اپنے تئیں ہو جائے گا۔

نوکیا کمپنی نے گزشتہ برس ہی سے چین میں اپنے صارفین کو اس طریقہ کار پر عمل کرنے  کی تلقین شروع کر رکھی ہے۔ السڈورف کے مطابق موبائل کی صنعت کے علاوہ دیگر شعبوں سے بھی بہت سے کمپنیوں نے اس سسٹم میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ جیسا کہ فارما انڈسٹری نے۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق ہر دسویں دوا جعلی ہوتی ہے۔ ان سے تکلیف میں کمی تو نہیں ہوتی بلکہ اکثر ان سے مرض میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ شہر ہنوور میں جاری سی بٹ نمائش میں اوریجنل ون کی اس ایجاد کو بہت سراہا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے بھی کوئی بھی حکومت نہیں چاہتی کہ جعلی مصنوعات اسے ہر سال اربوں کا نقصان پہنچائیں۔

رپورٹ : عدنان اسحاق

ادارت : عاطف بلوچ