1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايرنی صدر احمدی نژاد پر دباؤ بڑھ رہا ہے

1 نومبر 2011

ايران ميں داخلی سياسی لڑائياں زوروں پر ہيں۔ پارليمانی اراکين کا مطالبہ ہے کہ صدر محمود احمدی نژاد کو پارليمنٹ ميں بلا کر اُن سے حکومتی پاليسيوں کے بارے ميں پوچھا جائے۔

https://p.dw.com/p/132kH
ايرانی پارليمنٹ
ايرانی پارليمنٹتصویر: Parliran.ir

اس قسم کے حالات ايران ميں اس سے پہلے بھی پيش آ چکے ہيں۔ ليکن ماضی ميں ہر مرتبہ ايران کے سپريم ليڈر خامنہ ای ملکی صدر کی مدد کو پہنچتے رہے ہيں۔ وہ يہ چاہتے تھے کہ کوئی بہت مشکل اور سبکی والی صورتحال پيدا نہ ہونے پائے۔

ليکن ايسا معلوم ہوتا ہے کہ ايرانی صدر اس بار اتنی آسانی سے بچ نہيں سکيں گے۔ سپريم ليڈر آيت اللہ خامنہ ای کے ساتھ محمود احمدی نژاد کے تعلقات بہت خراب ہو چکے ہيں، جو کئی مہينوں سے صدر کو اُن کی حدود کے اندر رکھنے کی کوششيں کر رہے ہيں۔ ايرانی قيادت ايک دوسرے کا گلہ کاٹنے ميں مصروف ہے۔ پارليمانی انتخابات ميں پانچ ماہ سے بھی کم عرصہ باقی رہ گيا ہے اور اس ليے بھی آپس ميں محاذ آرائی بڑھتی جا رہی ہے۔

قطر ميں بروکنگز دوحہ سينٹر کے شادی حامد نے کہا کہ ايران ميں ہميشہ ہی بہت بڑے سياسی کھيل کھيلے جاتے ہيں اور اب اُن ميں اور زيادہ حدت پيدا ہوتی جا رہی ہے۔ 2.6 ارب ڈالر کے بينک فراڈ نے، جو ايران کی تاريخ کا سب سے بڑا مالی اسکينڈل ہے، احمدی نژاد کے مخالفين کو پارليمانی انتخابات سے قبل صدر اور اُن کے حاميوں کو سبکی سے دوچار کرنے کا ايک اور موقع فراہم کيا ہے۔ پارليمان وزير اقتصاديت کو برطرف کرنے کے لیے اقدامات کا آغاز کر چکی ہے۔ پچھلے اتوار کو 290 پارليمانی اراکين ميں سے 73 نے، جو کہ 25 فيصد کی مطلوبہ حد سے زيادہ ہيں، ايک قرارداد پر دستخط کيے تاکہ اس فراڈ کے بارے ميں صدر سے سوالات کيے جا سکيں۔

محمود احمدی نژاد
محمود احمدی نژادتصویر: ISNA

تاہم صدر احمدی نژاد اس اسکينڈل کی تحقيقات سے براہ راست طور پر مربوط نہيں ہيں اور يہ بھی واضح نہيں ہے کہ کيا انہيں تہران کی پارليمان ميں پيشی کا حکم ديا جائے گا يا نہيں اور اگر ايسا ہوا تو کب ہو گا۔

احمدی نژاد کے مخالفين ان پر ايران ميں خطرے کی آخری سرخ لکير کو عبور کر کے صدارتی اختيارات ميں اضافہ کرتے ہوئے سپريم مذہبی ليڈر خامنہ ای کو چيلنج کرنے کا الزام لگا رہے ہيں، جو ايران کی سب سے زيادہ با اختيار شخصيت ہيں۔

احمدی نژاد کے درجنوں حاميوں کو گرفتار يا سياسی منظر سے ہٹايا جا چکا ہے۔ رياستی ميڈيا ميں اُن کے قريبی معتمد اسفنديار رحيم مشائی کو اس ’منحرف دھارے‘ کا ليڈر کہا جا رہا ہے جو اسلامی نظام پر سمجھوتے کا قائل ہے۔ ايرانی صدر پر اس قسم کا کوئی بھی دباؤ خامنہ ای کی منظوری کے بغير نہيں ڈالا جا سکتا تھا، جنہيں تمام کليدی معاملات ميں آخری فيصلے کا اختيار حاصل ہے۔

سپريم ليڈرخامنہ ای
سپريم ليڈرخامنہ ایتصویر: AP

حاليہ مہينوں کے دوران خامنہ ای نے پارليمانی اراکين کی طرف سے صدر احمدی نژاد کو سوالات کے ليے پارليمنٹ ميں بلانے کی کئی کوششوں کو ناکام بنا ديا۔ اس کا مقصد ايران کی ساکھ کو نقصان سے اور صدر کو پرغضب اراکين کی تنقيد کی ناگوار صورتحال سے بچانا تھا۔ ليکن ماہرين کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ خامنہ ای حالات کو ان کا اپنا ہی رخ اختيار کرنے دينا چاہتے ہيں کيونکہ اُن کے بيانات سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلامی نظام کے ليے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے زيادہ جارح انداز اختيار کر رہے ہيں۔

تہران کی آزاد يونيورسٹی کے سياسيات کے پروفيسر احمد بخشيش نے کہا کہ يہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ اب خامنہ ای پارليمان ميں صدر محمود احمدی نژاد کے مخالفين کو اُن پر بھر پور وار کرنے کا موقع دينا چاہتے ہيں۔

رپورٹ: شہاب احمد صديقی / خبر رساں ادارے

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں