1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلی، غیر قانونی تارکین وطن کی اکثریت کی نئی منزل

شمشیر حیدر13 جولائی 2016

یورپی بارڈر ایجنسی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اور ترکی کے مابین معاہدہ طے پانے کے بعد یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی جب کہ اٹلی کا رخ کرنے والے نئے مہاجرین کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JO39
Griechenland Lesbos Rückführung von Flüchtlingen in die Türkei
تصویر: Reuters/G. Moutafis

یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ادارے ’فرنٹیکس‘ کے سربراہ فابریس لیجیری کا کہنا ہے کہ رواں برس اپریل کے مہینے میں ترکی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کے آغاز کے بعد سے بحیرہ ایجیئن کے راستے ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں تو کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے بعد سے اٹلی تارکین وطن کی نئی پرکشش منزل بن چکا ہے۔

ہزاروں پناہ گزین اپنے وطنوں کی جانب لوٹ گئے

جرمنی میں مہاجرین سے متعلق نئے قوانین

ایک فرانسیسی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے لیجیری کا کہنا تھا، ’’اس سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران تین لاکھ 60 ہزار غیر قانونی تارکین وطن یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوئے۔ اگرچہ یہ تعداد پچھلے سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے لیکن اپریل کے بعد سے غیر قانونی تارکین وطن کی یورپ آمد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔‘‘

’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘

فرنٹیکس کے ریکارڈ کے مطابق 2015ء میں پورے سال کے دوران پندرہ لاکھ غیر قانونی تارکین وطن مختلف یورپی ممالک کی حدود میں داخل ہوئے۔ تاہم مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کی اکثریت ترکی سے یونانی جزیروں تک پہنچی تھی۔

لیجیری کا کہنا تھا اس برس اٹلی غیر قانونی تارکین وطن کی نئی منزل بن چکا ہے جہاں روزانہ کی بنیادوں پر 750 تارکین وطن بحیرہ روم کے راستے اطالوی جزیروں پر پہنچ رہے ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں اب یونانی جزیروں پر روزانہ تقریباﹰ 50 تارکین وطن پہنچ رہے ہیں۔

فرنٹیکس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یونان کا رخ کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی کی پہلی بڑی وجہ ترکی کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ ہے جس کے تحت انقرہ حکومت یونین سے مالی اور سیاسی سہولیات حاصل کرنے کے عوض تارکین وطن کو یورپ کا رخ کرنے سے روک رہی ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یونان اور مقدونیہ کے مابین سرحد بند کی جا چکی ہے جس کے باعث تارکین وطن بلقان کی ریاستوں کے زمینی راستوں سے گزر کر شمالی اور مغربی یورپ کا رخ نہیں کر پا رہے۔

دوسری جانب بحیرہ روم عبور کرنے کی کوششوں میں سمندر میں ڈوب جانے والے تارکین وطن کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم سماجی تنظیم ’آف شور ایڈ اسٹیشن‘ کے مطابق اس نے جمعرات کے روز لیبیا کے ساحلوں سے اٹلی کا رخ کرنے والی ایک کشتی میں سے چار سو تارکین وطن کو زندہ بچا لیا لیکن چار تارکین وطن اس طویل سفر کے دوران جان کی بازی ہار بھی گئے۔

اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے یورپی یونین مستقبل قریب میں فرنٹیکس کا نام بدل کر ’یورپیئن بارڈر اینڈ کوسٹ گارڈ ایجنسی‘ رکھنے والی ہے جب کہ اس ایجنسی کے اہلکاروں کی تعداد میں بھی مزید پندرہ سو کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں