1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اپنوں کے ٹھکرائے ہوئے بزرگ شہریوں کی پناہ گاہ: انمول ہوم

عنبرین فاطمہ، کراچی
2 مئی 2017

پاکستان کے شہر کراچی میں انمول ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ امانت پرویز رنگ و نسل اور مذہبی تفریق سے بالا تر ہو کر ایسے بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، جن کی اولاد انہیں اپنے ساتھ رکھنے کی یا تو روادار یا متحمل نہیں ہوتی۔

https://p.dw.com/p/2cBK3
DW Local Hero Pakistan
انمول زندگی اولڈ ہوم کے بانی امانت پرویز، بائیں، اپنے قائم کردہ شیلٹر ہاؤس کے رہائشی دو بزرگ شہریوں اور ایک خاتون کارکن کے ساتھ

پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ماضی میں خاندان اور خاندانی نظام کو بہت زیادہ معاشرتی اہمیت حاصل رہی ہے، چند عشرے پہلے تک کسی اولڈ ہوم کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا۔ تاہم اب اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کبھی صرف مغربی معاشروں میں خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ سمجھے جانے والے اولڈ ہوم اب پاکستان میں بھی نظر آنے لگے ہیں، جہاں ضرورت مند عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک اولڈ ہوم انمول زندگی ویلفیئر ٹرسٹ کا شیلٹر ہاؤس ہے، جہاں اس وقت اٹھائیس بزرگ شہری رہائش پذیر ہیں۔

DW's Local Heroes
انمول زندگی اولڈ ہوم کا ایک کارکن ایک بزرگ شہری کو کھانا کھلاتے ہوئےتصویر: DW/U. Fatima

پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کی ایک عمارت میں قائم ضعیف افراد کی خدمت اور دیکھ بھال کے لیے وجود میں آنے والا انمول زندگی ٹرسٹ گزشتہ چھ سال سے کام کر رہا ہے۔ اس ٹرسٹ کے بانی پرویز امانت ہیں، جو پیشے کے لحاظ سے فزیوتھراپسٹ ہیں۔

ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امانت پرویز نے بتایا کہ اس شیلٹر ہوم کے قیام کا خیال انہیں ایک مریضہ کی فزیوتھراپی کے دوران آیا۔

انہوں نے بتایا، ’’ایک سرکاری ادارے سے ریٹائرمنٹ کے بعد میں فزیوتھراپی کے شعبے سے نجی طور پر منسلک ہو گیا۔ انہی دنوں میں ایک مریضہ کی فزیوتھراپی کے لیے اس کے گھر گیا۔ اس خاتون کے گھر والوں نے مجھ سے کہا کہ وہ اس کی مزید دیکھ بھال نہیں کر سکتے تھے اور کوئی ایسا اداراہ تلاش کر رہے تھے جہاں اس مریضہ کو داخل کرایا جا سکے۔‘‘

امانت پرویز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس مریضہ میں مجھے بانی پاکستان محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کی جھلک نظر آتی تھی۔ اس خاتون کے اہل خانہ کی بات سن کر مجھے دکھ ہوا۔ میں نے اپنے والد سے بات کی اور کہا کہ میں اس مریضہ کو دیکھ بھال کے لیے اپنے گھر لانا چاہتا ہوں۔ اس پر میرے والد نے میری حوصلہ افزائی کی۔ پھر جب اس خاتون کے اہل خانہ سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ اس مریضہ کو کسی کے گھر نہیں بلکہ کسی ادارے میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ تب میں نے اپنے خاندان سے مشورہ کرتے ہوئے اس شیلٹر ہوم کا آغاز کیا اور اس مریضہ کو یہاں لے آیا۔ آج اس اولڈ ہوم میں پانچ خواتین اور تئیس مردوں کی ہر ممکن سطح پر نگہداشت کی جاتی ہے۔‘‘

DW's Local Heroes
کراچی کے انمول زندگی اولڈ ہوم میں اس وقت کل اٹھائیس بزرگ خواتین اور مرد شہری مقمیم ہیں، جن کی ہر طرح سے مکمل جسمانی اور طبی دیکھ بھال کی جاتی ہےتصویر: DW/U. Fatima

امانت پرویز کے مطابق ان کے شیلٹر ہوم میں تین طرح کے افراد مقیم ہیں، ’’ان میں سے چند ایسے بزرگ شہری ہیں، جن کی اولاد انہیں یہاں چھوڑ گئی ہے اور انہیں کبھی کوئی ملنے نہیں آتا۔ دوسرے وہ ضعیف شہری ہیں، جن کی نہ تو کوئی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی اور وارث۔ تیسری قسم ایسے افراد کی ہے، جن کے اپنے بچے کسی نہ کسی وجہ سے انہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ لیکن وہ اپنے بزرگوں کو یہاں داخل کرانے کے بعد نہ صرف انہیں ملنے آتے ہیں بلکہ ہمارے ساتھ مل کر کوئی نہ کوئی کام بھی کرتے رہتے ہیں۔‘‘

انمول زندگی اولڈ ہوم کے بانی بتاتے ہیں کہ اس ادارے کو شروع کرنے پر ان کے دوستوں اور اہل خانہ نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی انہیں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے بڑی مشکل مذہب کی وجہ سے عطیات کا نہ ملنا تھی۔ امانت پرویز نے بتایا، ’’میں خود چونکہ مذہب کے لحاظ سے کرسچن ہوں، اس لیے جب میں نے یہ ادارہ شروع کیا تو چند لوگوں نے تو فنڈز دیے لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو یہ کہہ کر پیچھے ہٹ گئے کہ میں کرسچن ہوں اور کرسچن کو زکواۃ نہیں دی جا سکتی۔ اس وجہ سے ہم نے بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ یہاں تک کہ دو دو مہینے ہم گھر والوں نے دونوں وقت آدھی آدھی روٹی کھا کر گزارا کیا لیکن اس ادارے کو بند نہیں ہونے دیا۔ ہمیں اب بھی مالی عطیات کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے چونکہ ہم نہ صرف ایسے ضرورت مند افراد کو رہائش اور علاج کی سہولیات مہیا کرتے ہیں بلکہ ادارے کے عملے کی تنخواہیں، عمارت کا کرایہ اور تمام یوٹیلیٹی بل بھی خود ہی ادا کرتے ہیں۔‘‘

DW's Local Heroes
انمول زندگی اولڈ ہوم کی رہائشی چند بزرگ خواتین اس شیلٹر ہاؤس کی ایک خاتون کارکن، دائیں، کے ساتھتصویر: DW/U. Fatima

فزیوتھراپسٹ امانت پرویز کے بقول گرچہ ان کو مذہب کے بنیاد پر تفریق کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ اپنے ادارے میں رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی بھی تفریق کے بغیر اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر مجبور اور ضرورت مند بزرگ شہریوں کی خدمت میں مصروف ہیں، ’’میں نے اس ادارے کو مذہب کے نام پر نہیں بلکہ انسانیت کے نام پر قائم کیا۔ میں کسی کا مذہب یا رنگ اور نسل دیکھ کر اس کی خدمت نہیں کرتا بلکہ اللہ کو خوش کرنے کے لیے یہ کام کرتا ہوں۔ مجھے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اب میرے بچے جوان ہو رہے ہیں۔ ان کے مستقبل کے لیے میں یہ کام چھوڑ دوں۔ لیکن میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ میں خدا کی خوشنودی کے لیے یہ کام کر رہا ہوں اور وہی میرے لیے ہر چیز کا بندوبست کر دیتا ہے۔‘‘

امانت پرویز کا قائم کردہ انمول زندگی اولڈ ہوم یا شیلٹر ہاؤس اب انتقال کر چکے ملک کے نامور سماجی کارکن مرحوم عبدالستار ایدھی کے قائم کردہ شیلٹر ہاؤس جتنا بڑا تو نہیں اور نہ ہی وہاں رہنے والے افراد کی تعداد ایدھی شیلٹر ہاؤس کے مکینوں جتنی ہے، پھر بھی محدود وسائل اور بہت سی مشکلات کے باوجود خدمت کے جذبے سے سرشار امانت پرویزکی جانب سے کی جانے والی انسانیت کی بے لوث خدمت انہیں یقینی طور پر ایک مقامی ہیرو بنا چکی ہے۔