1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایتھنز: نو عمر پاکستانی جسم فروش، حقیقت یا افسانہ؟

محمد منصور عالم
1 جنوری 2018

کیا غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے کم عمر پاکستانی تارکین وطن جسم فروشی کے کاروبار میں ملوث ہیں؟ اس موضوع پرایتھنز کے معروف اومونیا اسکوائر کا آنکھوں دیکھا حال۔

https://p.dw.com/p/2qBOw
تصویر: DW/ Infomigrants/A. Gabeau

ابھی گزشتہ دنوں ہمارا ایتھنز جانا ہوا۔ مقصد وہاں مقیم پاکستانی برادری کو درپیش مشکلات اور ایسے پاکستانیوں کے حالات جاننا تھا جو غیر قانونی طور پر  یونان پہنچتے ہیں۔ ایتھنز کے سفر سے قبل ہمیں علم ہوا کہ اس شہر میں ایسے پاکستانی کم عمر نوجوان جسم فروشی میں ملوث ہیں، جو غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے۔ یہ لڑکے سورج ڈھلتے ہی  شہر کے مرکز میں واقع اومونیا اسکوائر پر اپنے گاہک تلاش کرتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ اگر ایسا ہے تو ان لڑکوں سے بات کی جائے۔

بائیس دسمبر کو، جب دو وقت مل رہے تھے، تو ہم دو مقامی پاکستانیوں کے ساتھ اومونیا اسکوائر پہنچے۔ اس روز ایتھنز میں صرف سردی ہی نہیں تھی بلکہ بارش بھی ہو رہی تھی۔

اپنے ساتھیوں کی مدد سے ہم ٹھیک اس مقام پر پہنچ گئے، جہاں اطلاعات کے مطابق جسم کے خریدار اور بیچنے والے ایک دوسرے کو تلاش کرتے ہیں۔ بارش کے سبب ہمیں وہاں کوئی بھی دکھائی نہیں دیا، ہم آگے بڑھ گئے۔ اس دوران میں مستقل اپنے موبائل فون کو چھپاتے ہوئے ویڈیو بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ کافی آگے تک جانے کے بعد بھی جب ہمیں کوئی مشکوک سرگرمی دکھائی نہیں دی تو ہم واپس پلٹ گئے۔ اندھیرا اور بارش ہماری مشکلات بڑھا رہے تھے۔ واپسی پر جیسے ہی ہم ملبوسات کی ایک دکان کی روشنی کی حدود میں آئے تو ہمارے قریب سے گزرتے ہوئے ایک نوجوان نے اپنی آنکھوں کے اشارے سے ہماری توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جیسے وہ ہم سے بات کرنا چاہتا۔ اس سے قبل وہ ایک عمر رسیدہ شخص کے ساتھ خفیہ انداز میں راز و نیاز کر رہا تھا۔ وہاں سے ناکامی کے بعد اس نے ہماری جانب رخ کیا۔ ہمارے مترجم نے ہمیں بتایا کہ وہ روزی روٹی کے لیے کسی کو ڈھونڈ رہا ہے اور اس کا تعلق روس سے ہے۔

اسی طرح ہمارے ایک دوست نے گاہک کی تلاش میں کھڑے ایک اور نوجوان سے دریافت کیا تو وہ البانیہ کا نکلا۔ اس موقع پر میں نے جیسے ہی اپنے موبائل کیمرے کا رخ ان کی جانب کیا تو وہ لوگ وہاں سے ہٹ گئے۔

مقامی نوجوان صحافیوں کی طرف سے ہمیں بتایا گیا کہ کچھ پاکستانی نوجوان واقعی جسم فروشی میں ملوث ہیں، لیکن اس کا بڑا سبب انہیں روزگار کا کوئی اور ذریعہ نہ ملنا ہے۔ پاکستانی برادری کی کوششوں کے سبب اور روزگار ملنے کے بعد کچھ نے یہ کام چھوڑ بھی دیا ہے۔ اسی طرح کے ایک ایسے پاکستانی نوجوان سے ہم نے ٹیلیفون پر بات بھی کی، جو اب یہ کام چھوڑ چکا ہے۔ اس نے پہلے تو انٹرویو دینے کی حامی بھری لیکن بعد میں اس سے انکار کر دیا۔ ہم نے اسے بہت سمجھایا کہ اس کا نام اور شناخت ظاہر نہیں کیے جائیں گے اور یہ کہ اس انٹرویو کا مقصد صرف ان لوگوں کو اصل حالات سے آگاہ کرنا ہے، جو کم عمری میں یورپ آنے کے لیے غیر قانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں، مگر بدنامی کے خوف کے سبب وہ اس پر راضی نہ ہوا۔

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے

یونان: چار پاکستانی مہاجر، ایک لڑکے پر اجتماعی جنسی حملہ کرنے پر گرفتار

جب یورپ میں قانونی رہائش کے لیے شادی بھی کام نہ آئے

دوسری جانب ایتھنز میں صحافت اور سماجی کام انجام دینے والے  مرزا جاوید سے جب ہم نے یہی سوال پوچھا تو ان کا اصرار تھا کہ جسم فروشی میں کوئی بھی پاکستانی نوجوان ملوث نہیں۔ ان کے بقول اس کام میں افغاستان ،بنگلہ دیش اور البانیہ وغیرہ کے نوجوانوں کی کثرت ہے مگر جب ان سے ان کی قومیت دریافت کی جاتی ہے تو ان میں کئی ایک خود کو پاکستانی بتاتے ہیں، ’’یہ سارے الزامات بے بنیاد ہیں اور اپنے ملک کی بجائے پاکستان کا نام لینا ایک طرح سے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے‘‘۔ اس موقع پر انہوں نے ڈی ڈبلیو کی جانب سے ماضی قریب میں کی گئی ایک ویڈیو رپورٹ پر بھی تنقید کی، جو ایسے کم عمر نوجوانوں مہاجرین کے بارے میں ہے جو جسم فروشی پر مجبور ہیں۔

اسی طرح ایتھنز کے رہائشی ایک اور پاکستانی نے بتایا کہ اس کاروبار میں ملوث کوئی بھی پاکستانی نوجوان پاکستانیوں سے بات نہیں کرتا۔

یونان کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں موجود زیادہ تر تارکین وطن کے لیے زندگی گزارنا انتہائی دشوار ہے۔ بہت سے پاکستانی کم عمر نوجوان تنہا بھی اس یورپی ملک میں پہنچے۔ اس تناظر میں ایک مقامی پاکستانی نے بتایا کہ ایسے کم عمروں کو دوران سفر ہی مشکلات اور جنسی استحصال کا اس قدر نشانہ بننا پڑتا ہے کہ بعد میں ’اپنی بقا کے لیے جسم فروشی ان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہ جاتی‘۔

یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے ‫پاکستانی‬

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید