1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی اعلیٰ قیادت میں اختلافات کا امکان

17 نومبر 2010

متنازعہ ایرانی جوہری پروگرام پر عالمی پابندیوں کے حوالے سے ایرانی صدر احمدی نژاد اور ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ العظمیٰ علی خامنائی کے درمیان ممکنہ اختلافات کاحوالہ امریکی وزیر دفاع گیٹس نے اپنے حالیہ بیان میں دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/QArB
احمدی نژاد، خامنائی کا ہاتھ چومتے ہوئےتصویر: dpa

امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کے مطابق ان کے پاس چند شواہد موجود ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کے صدر اور سپریم لیڈر کے درمیان عالمی طاقتوں کی جانب سے لگائی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے اثرات پر اختلافات نمودار ہوئے ہیں۔ گیٹس کے مطابق سپریم لیڈ آیت اللہ العظمیٰ علی خامنائی کو احساس ہونے لگا ہے کہ ایرانی صدر ان کو عالمی اقتصادی پابندیوں کے ایرانی معیشت پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے غلط اعداد وشمار پیش کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع نے یہ بیان وال اسٹریٹ جرنل کی سینٹرل ایگزیکٹو آفس کونسل میں دیا۔ اس اجلاس میں ایرن پر لگائی جانے والی پابندیوں کے اثرات کا جائزہ لینا بھی شامل تھا۔

Sicherheitskonferenz in München - Robert Gates
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس: فائل فوٹو

امریکی وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ پابندیوں کے اثرات ایرانی توقعات سے زیادہ سامنے آئے ہیں۔ گیٹس کے مطابق ان اثرات کی وجہ سے ایرانی قیادت کے اندر تفریق نظر آنے لگی ہے۔ اس موقع پر ایرانی جوہری پروگرام کے تناظر میں کسی ممکنہ فوجی ایکشن پر بھی اظہار خیال کیا گیا۔ رابرٹ گیٹس کا خیال ہے کہ سیاسی حکمت عملی کے بہتر اور مثبت اثرات پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ اس میں بات چیت اور پابندیوں کا عمل ساتھ ساتھ چل رہا ہے جب کہ فوجی ایکشن کی صورت میں ایران اپنے جوہری پروگرام کو دو سے تین سال کے لئے مؤخر کر دے گا۔ امریکی وزیر دفاع کے مطابق سیاسی حکمت عملی کے تحت سامنے آنے والی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی صدر کو اپنے ملک کی سب سے اعلیٰ شخصیت کی ممکنہ نارضگی کا سامنا ہونا شروع ہو گیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتہ کہا تھا کہ مغرب کو ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے فوجی ایکشن کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ امریکی وزیر دفاع، اسرائیلی وزیر اعظم کی رائے سے کلی طور پر متفق نہیں ہیں۔ گیٹس کے نزدیک ایران کے خلاف فوجی ایکشن کسی طور طویل المدتی اثرات کو ظاہر نہیں کرے گا۔ یہ ایک کم مدتی اثرات کا حامل عمل ہو گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کسی بھی فوجی ایکشن کے نتیجے میں فی الوقت منقسم ایرانی قوم ایک بار پھر متحد ہو جائے گی۔ گیٹس کا خیال ہے کہ اقتصادی دباؤ اور سفارتی عمل ایک بہترین طریقہ ہے اور اس سے ایران کو قائل کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے متنازعہ جوہری پروگرام سے دستبردار ہو جائے۔

Mahmud Ahmadinedschad Millenniums-Gipfel
ایرانی صدر اقوام متحدہ میں: فائل فوٹوتصویر: AP

دوسری جانب ایران نے ایک سال سے زائد عرصے کے تعطل کے بعد چھ بڑی طاقتوں کے نمائندوں سے بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ سفارت کاروں کا خیال ہے کہ ایران بات چیت کی میز پر بیٹھ تو رہا ہے لیکن کسی بڑی پیش رفت کے امکانات انتہائی کم ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں