1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی الیکشن:’پارلیمان کے مردانہ چہرے میں تبدیلی‘ مشکل

کشور مصطفیٰ25 فروری 2016

ایران میں کل 26 فروری کو پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ اس وقت 290 پارلیمانی نشستوں میں سے محض 9 خواتین کی ہیں۔ جمعے کے انتخابات سے اس تفریق کے خاتمے کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1I1aE
تصویر: imago/UPI Photo

ایران کی پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی کبھی بھی مردوں کے مساوی نہیں رہی۔ ایران کی کُل آبادی قریب 80 ملین ہے جس میں خواتین کی شرح 50 فیصد سے زائد ہے اس کے باوجود اب تک ایران کے پارلیمنٹ میں منتخب اراکین میں خواتین کی سب سے بڑی تعداد 14 رہی ہے۔ اس صورتحال نے حقوق نسواں کے لیے سرگرم خواتین نے ایک مہم چلانے کا فیصلہ کیا جس کا موٹو ہے،’’ ایرانی پارلیمان کے مردانہ چہرے کی تبدیلی‘‘۔

اس گروپ نے اپنا ہدف یہ طے کیا ہے کہ ایرانی پارلیمان میں کم از کم 50 خواتین اراکین کسی طور پر منتخب ہو کر آنی چاہییں۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہوگی کیونکہ اس وقت ایران کی پارلیمان میں خواتین کا تناسب محض 3 فیصد ہے۔

اس مہم کی روح رواں اور ایک معروف ایرانی مصنفہ ژیلا شریعت پناہی اس بارے میں کہتی ہیں،’’پارلیمان ہو یا ماہرین کی اسمبلی، ہم خواتین کے ساتھ جاری امیتازی سلوک کے خلاف لڑیں گے۔‘‘

Iran Wahl - Anhängerin der Reformer
ایران میں اصلاحات پسند سیاستدانوں کی حامی خواتینتصویر: picture-alliance/dpa/A. Taherkenareh

ایران کا آئینی نگران ادارے مجلسِ پاسدارانِ انقلاب یا ’گارڈین کونسل‘ جو انتخابی امیدواروں کی نگہداشت کرتا ہے، اُس 88 رُکنی اسمبلی یا مجلسِ خبرگانِ رہبری میں سے خواتین کی 16 نشستوں کو بھی خارج کر چُکا ہے۔ اِس ادارے کی ذمہ داری سپریم لیڈر خامنہ ای کی وفات کے بعد اُن کے جانشین کا انتخاب ہے۔ خواتین کی نشستوں کے اخراج کے بعد اب سپریم لیڈر ’خامنہ ای‘ کے بعد اُن کے جانشین کا انتخاب کا اہم فیصلہ صرف مرد کریں گے۔

ایران میں سیاسی سطح پر صنفی تفریق کا خاتمہ گرچہ کوئی بے مثال اور نیا عمل نہیں ہوگا کیونکہ 1979 ء میں اسلامی انقلاب کے بعد منتخب ہونے والی پہلی اسمبلی میں منیرہ گورجی نامی ایک خاتون شامل تھیں۔

تازہ ترین مردم شماری کے مطابق ایران کی آبادی کا 50.4 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ موجودہ صدر حسن روحانی کی کابینہ میں تین خواتین وزراء شامل ہیں اور یہ سب نائب صدور ہیں، اس کے باوجود اعلیٰ عہدوں پر فائز مردوں کے مقابلے میں اب بھی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔

ژیلا شریعت پناہی جو 1975ء سے 1987ء کے دوران ایران کے جوہری ادارے میں بحیثیت طبعیات دان کام کر چُکی ہیں۔ انہوں نے اسلامی دین اقدار کا گہرا مطالعہ کر رکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں ،’’دراصل الفاظ نہیں بلکہ تاویل و تفسیر کا قصور ہے۔‘‘

Wahlkampf im Iran eine Frau verteilt Informationsmaterial für pro-reform Kandidaten
ایرانی خواتین تمام تر دشواریوں کے باوجود سیاسی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیںتصویر: AP

ژیلا مزید کہتی ہیں،’’ میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہمیں ایک نئی تفسیر اور تاویل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم نے پہ کر لیا تو پھر مذہب کے نام پر خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہو سکے گا۔‘‘ ژیلا نے کہا ہے کہ اُن کی مہم کا ہدف ایران کی پارلیمانی اراکین میں عورتوں کو 50 فیصد نشستیں دلوانا ہے۔

جمعے کے پارلیمانی انتخابات میں 6,229 امیدواروں میں سے محض 9 فیصد خواتین شامل ہیں تاہم ژیلا کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مہم کی مدد سے پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی میں اضافے کی کوشش کر رہی ہیں تاہم اس عمل میں وہ یکدم بڑی تبدیلی کی توقع اور کوشش نہیں کر رہی ہیں بلکہ ایک ایک قدم سے آگے بڑھنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،’’عوام اور حکام دونوں کو ایک ثقافتی تبدیلی سے گزرنا ہوگا اور یہ بہت اہم ہے۔‘‘