1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی انتخابات

17 مارچ 2008

پارلیمانی انتخابات کے نتائج توقع کے عین مطابق رہے لیکن اس مرتبہ قدامت پسند دو دھڑوں میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں ایک دھڑا صدر احمدی نژاد کا حمایتی ہے تو دوسرا سابق جوہری مذاکرات کار علی لاری جانی کا ہمدرد۔

https://p.dw.com/p/DYOT
تصویر: AP

اس سے قطع نظر کہ یورپی یونین اور صدر احمدی نژاد کے مخالفین دھاندلیوں کا الزام عائد کر رہے ہیں، قدامت پسند ایران کے پارلیمانی انتخابات میں اپنی کامیابی پر جشن منا نے میں مصروف ہیں ۔ اب تک کے سامنے آنے والے نتائج کے مطابق قدامت پسند پارلیمنٹ میں ایک تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ جبکہ بقیہ نشستیں اصلاحات پسند کے حصے میں گئیں ہیں ۔ اصلاحات پسندوں کوامید تھی کو وہ زیادہ نشستیں حاصل کر سکیں گے۔ ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ مغربی طاقتوں نے ان انتخابات میں مداخلت کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی لیکن نتائج نے ثابت کر دیا کہ لوگ ایران کی موجودہ پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔

گو کہ انتخابات کے نتائج توقع کے عین مطابق رہے لیکن اس مرتبہ قدامت پسند دو دھڑوں میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں ایک دھڑا صدر احمدی نژاد کا حمایتی ہے تو دوسرا سابق جوہری مذاکرات کار علی لاری جانی کا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق مذاکرات لاری جانی کو مذہبی حلقوں کی جانب سے واضع حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے ایک بات واضع ہو گئی ہے کہ ایران کی مذہبی شخصیات اور احمدی نژاد کے درمیان فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ احمدی نژاد کے مخالف قدامت پسند لاری جانی کو نئی اسمبلی کا اسپیکر بنان چاہتے ہیں۔ مبصریں کے خیال میں یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایران میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں جہاں تک امیدواروں کا تعلق ہے تو اس مرتبہ مذہبی امیدواروں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں کم تھی۔

موجودہ انتخابات صدر احمدی نژاد کے لئے ایک امتحان خیال کیئے جا رہے تھے ۔ لیکن نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات نہیں کی جا سکتی کہ آیا وہ کامیاب ہوئے ہیں یہ نا کام ؟ لیکن ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ احمدی نژاد کو مستقبل میں اختلاف رائے کا سامنا ہو گا۔